نیوایئر اجتماعی ریپ کیس: تینوں ملزمان کو پھانسی کی سزا

photo credit @ dainik bhaskar

بلند شہر: لڑکی کے اغوا، زیادتی کے بعد قتل کے تینوں ملزمان کو ملی سزائے موت
بلندشہر /میرٹھ (آئی این ایس انڈیا) پوکسو عدالت نے بدھ کے روز یوپی کے بلندشہر میں مشہور نیو ایئر اجتماعی عصمت دری کیس میں دو سال کے بعد تین مجرموں کو سزائے موت سنائی ہے۔ سال 2018 میں نیو ایئر منانے کے لئے ایک انٹرمیڈیٹ طالبہ کا اغوا کیا گیا اور اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ اس کے بعد گریٹر نوئیڈا کے ایک گھر میں اس کی لاش قتل کر کے پھینک دی۔ مجرموں کی سزا کے بعد لڑکی کے اہل خانہ نے عدالتی انصاف پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ لواحقین نے بتایا کہ وہ مجرموں کوپھانسی کے پھندے پر لٹکا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔خیال رہے کہ 2 جنوری 2018 کوشہر کوتوالی کے علاقے میں چاند پور کی 12 سالہ طالبہ کوموٹر سائیکل سے زبردستی اپنی گاڑی میں کھینچ لیا گیا اور اسے اغوا کرکے فرار ہوگئے۔ طالبہ اپنی کوچنگ سینٹر کے تحت نیوایئر کی تقریب سے گھر جارہی تھی۔ چلتی گاڑی میں اس کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ اس کے بعد اس کا قتل کردیا گیا۔ دو دن بعد 4 جنوری کو گریٹر نوئیڈا کے دادری کے علاقے میں لڑکی کی لاش ملی۔ پولیس تفتیش کے بعد لاش کی شناخت کی گئی۔ اہل خانہ نے غیر برادری کے 3 لڑکوں پر اجتماعی عصمت دری اور قتل کا مقدمہ درج کیا۔اس واقعہ سے یوپی کی برہمنی سیاست گرم ہوگئی تھی۔شدید دباؤ میں پولیس نے 10 دن بعد اس معاملے کا انکشاف کیا اور نامزد تینوں نوجوان اس میں ملوث پائے گئے۔ پولیس نے اس معاملہ میں سکندرآباد کے رہائشی ملزم اسرائیل، ذوالفقار اور دلشاد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ملزم نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ لڑکی کوتوالی گاؤں سے صرف 200 قدم کے فاصلے پر نیو ایئر منانے کے لئے اس وقت اغوا کیا،جب وہ سڑک پر تنہا نظر آئی، انہوں نے لڑکی کوکار میں اغوا کر لیا۔واقعے کے وقت دلشاد پچھلی سیٹ پر لڑکی کا ہاتھ پکڑر کھا تھا۔ اسرائیل نے پہلے منھ کالا کیا، جب لڑکی چیخنی لگی، تو دلشاد اور اسرائیل نے اس کا دوپٹہ سے گلا دبا دیا۔ پھر وہ اکبر پور کے قریب لاش پھینک کر فرار ہوگئے۔عدالت نے اس معاملے میں سخت تبصرے کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، اگر گھر سے باہر کی بیٹیاں تعلیم کے لئے محفوظ نہیں ہیں، تو پھر حکومت کے ذریعہ چلائی جانے والی مہم ’بیٹی بچاؤ -بیٹی پڑھاؤ‘ مہم لغو ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.