پٹنہ(آئی این ایس انڈیا) ہفتے کے روز آرا کے بہیا کے رہائشی راج کشور اپادھیائے نے کرونا ٹیسٹ کرایا، ریپیڈ اینٹی جن ٹیسٹ کرانے کے بعد ان کی رپورٹ نگیٹو آئی، لیکن اس میں کرونا کی علامات تھیں،ہفتہ کے روز ان کی سانسیں پھولنے لگیں۔ انہیں آناً فاناً آرا کے نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا، لیکن اتوار کی صبح اسپتال نے پٹنہ کے نجی اسپتال ریفر کردیا۔ بیوی نیلما اور بیٹے اپوروا کی کشمکش یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ آرا میں کوششوں کے بعد اس نے 25 ہزار روپے میں آرا سے پٹنہ کے لئے ایک ایمبولینس بک کرایا،اس ایمبولینس میں آکسیجن کی قیمت 500 روپیہ فی گھنٹہ تھی، لیکن مجبوری کے تحت راج کشور اپادھیائے کو آرا سے پٹنہ لایا گیا۔ جس اسپتال میں انہیں ریفر کیا گیا تھا، اس نے مریض کے آنے کے بعد بھرتی سے انکار کردیا۔ بیوی اور بیٹے کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، کچھ لوگوں نے سورس اور پیروی بھی کی کہ کسی جگہ اسپتال میں ایڈمٹ کرلیا جائے، لیکن سب بیکار۔شام ہونے تک آکسیجن بھی ختم ہونے لگی، اور راج کشور اپادھیائے کی سانس بھی کم ہونے لگی۔ راج کشور ایمبولینس میں ہی بیٹے اور بیوی کے سامنے دم توڑ گئے۔راج کشور اپادھیائے پیشہ سے نجی ٹیچر تھے۔ بیٹا دہلی میں قانون کی تعلیم حاصل کررہا تھا۔آخر وہ بے سہاراہوگئے، سرکاری ریکارڈ میں ان کا نام کہیں بھی نہیں ہے، کیوں کہ انہیں کسی اسپتال میں ایڈمٹ نہیں کیا گیا تھا۔اسی طرح اتوار کے روز مظفر پور کے ارجن اپادھیائے کو ان کے بیٹے بہو نے سڑک پر چھوڑدیا۔ بعد میں جب وہ اسپتال گئے، تو اس کا پروسس اتنا لمبا تھا کہ وہ بھی ایمبولینس میں دم توڑگئے۔ وہ بھی اسپتال میں داخل نہیں ہوسکے تھے۔ یعنی سرکار حکومت کورونا سے مرنے والوں کی فہرست میں ان ہی لوگوں کو شامل کررہی ہے، جن کی موت اسپتال میں ہوئی ہے۔ سڑک پر ایمبولینسوں میں دم توڑنے والوں کی تعداد سیکڑوں ہے، جن کو حکومت شمار نہیں کررہی ہے۔پٹنہ کے علاوہ 37 ضلع ہیڈ کوارٹرز ہیں۔ جہاں ایک یا دو اسپتالوں میں اینٹی جن ٹیسٹ کی سہولت دستیاب ہے، لیکن آر ٹی پی-سی آر ٹیسٹ کی سہولت ہیڈ کوارٹر میں صرف ایک اسپتال میں دستیاب ہے۔ اس صورتحال میں اگر مریض سنگین ہے، تو پھر اس کے RTP-CR کی جانچ نہیں کی جاتی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر میں زیادہ تر مریض لینگ میں انفیکشن کے شکار ہیں۔ اس صورتحال میں انٹی جن ٹیسٹ میں ان کا درست معائنہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ جب تک آر ٹی پی-سی آر کی ٹیسٹنگ اور اس کی رپورٹ دی جاتی ہے، مریض کے پھیپھڑوں کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔