رمضان اور نیکی

nasir

ضروری نہیں ہے کہ جب آپ کی جیب ہری ہوتب ہی صدقہ نکالاجائے یہ تصورہی غلط ہے ہم نے صرف روپے پیسے کوہی صدقہ کے لئے لازم وملزوم کرلیاہے، ہم صدقہ کے نام پرفطرہ نکالنے کوہی سب سے بڑاکمال سمجھتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ فطرہ اداکرکے ہم نے غریبوں، بے کسوں، یتیموں پراحسان کیاہے حالانکہ فطرہ اداکرکے آپ نے اپنے اوراپنے اہل وعیال کوبچالیاہے،صدقہ فطرکی اگرآپ کی وسعت نہیں ہے توپریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ کام توآپ اپنے ہاتھ پیراوربات چیت سے بھی حاصل کرسکتے ہیں مثلاآپ کے پاس وقت ہے اس وقت کوآپ استعمال میں لائیں ناواقف لوگوں کوجاجاکریابلابلاکردینی مسائل، قرآنی آیات، نبوی ارشادات، ادعیہ ماثورہ وغیرہ سکھاکران کی عقبی کے ساتھ اپنی عقبی کوبھی درست کرسکتے ہیں، صدقہ یہ بھی ہے کہ آپ کے گھرمیں آپ کی اولادہے ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں انھیں نمازروزہ کی عادت ڈالیں، ان کودینی باتیں بتائیں، اپنی بیوی کاہاتھ بٹائیں اس کے رشتہ داروں کی عزت کریں، آپ اکیلے مسجدمیں آجائیں اوردھیان دیں کہ آپ تنہائی میں جب آپ اکیلے ایک خداکے گھرمیں موجودہیں کیاکرسکتے ہیں صرف تلاوت؟ صرف سنن اورنوافل؟ صرف ذکرواذکار؟ نہیں جناب یہ سب کام توآپ ہروقت کریں کوئی روک ٹوک نہیں ہے نہ ہی اس میں کوئی ہچکچاہٹ اورترددہوسکتاہے، کرنے کاکام تویہ بھی ہے اگرمسجدکی چٹائی ٹوٹ رہی ہے تواس کی سلائی کردیں، اگرمسجدکے لوٹے گندے ہوگئے ہیں تواس کی صفائی کردیں، اگرامام صاحب کامصلی گندہ ہوگیاہے تواس کی دھلائی کردیں، اگرمسجدکے اندربجلی کے تاربے ترتیب ہیں توان کی درستگی پرتوجہ کرلیں، اگرمسجدکے پنکھے کالے ہوگئے ہیں یامسجدکے گوشوں، کونوں اورزاویوں نیزدرودیواراورعرش وفرش کہیں بھی گندگی ہے مکڑی کے جالے ہیں توان کوہٹانے کی سوچیں، راہ چلتے سڑک سے اینٹ، پتھر، کیچڑ، گندگی، مانجھا، رسی جوبھی تکلیف کاباعث بن سکتی ہواس کوہٹانے کے جتن کریں، کچھ دیرکے لئے آپ کانفس منع کرے گا، دل سے آوازآئے گی کہ مسجدکے یہ کام تومؤذن کے ہیں، سڑک کی صفائی کاکام توصفائی ملازم کاہے توجناب والا! پھرآپ کس کام کے ہیں؟ آپ کوئی توایساکام کریں کہ جس کی وجہ سے آپ کارب آپ سے راضی ہوجائےاللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ آپ حج پرحج کریں یاعمرہ پرعمرہ کریں بلکہ یہ کام توآپ اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کرکے ان کے پیردباکر، ان کاسردباکر،ان کی دعائیں لے کربھی کرسکتے ہیں، پیسے والے پیسوں سے رب کوراضی کرنے کی کوشش کررہے ہیں توبے پیسے والے اپنے دائرہ اوراپنے اختیارکے کام کرکے بھی اپنے رب کوراضی کرسکتے ہیں، ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جومسجدکے بیت الخلے، مدرسوں کے طہارت خانے، وضوخانے، پاخانے پیشاب خانے کی صفائی پردھیان دیتے ہیں؟ ایک بھی نہیں توپھر یادرکھیں حضرت مدنی شیخ الاسلام یوں ہی نہیں بن گئے، حضرت صدیق باندوی عارف باللہ یوں ہی نہیں بن گئے، ان کی جیب خالی نہیں تھی سیکڑوں لوگوں کوان کے دسترخوان پرکھاناملتاتھالیکن یہ وہ ہستیاں ہیں جومجاہدبھی ہیں، زاہدبھی ہیں، صائم النہاربھی ہیں قائم الیل بھی ہیں، خادم العلماء بھی ہیں خادم الطلبہ بھی ہیں، انہوں نے اپنے آپ کوفناکردیازندہ ہوگئے، اپنے آپ کوقربان کردیابامرادہوگئے، اپنی خودی کوبلنداورخوداری کودل وجان سے لگایاخداکوپاگئے اورہم اب تک یہی مسئلہ پوچھتے پھررہے ہیں کہ اس سال فطرہ کی رقم کتنی ہے، اس پوچھ تاچھ میں رمضان گزرگیا، عیدہوگئی غریب کے بچوں نے پرانے کپڑوں میں عیدکرلی، یتیم بچوں نے رات کاباسی کھاناصبح شیرینی کی جگہ کھالیا، بیوہ عورت نے عیدکے دن بھی آلوترکاری سے اپنے بچوں کاکوبہلادیا، اورتم کواب تک فطرہ کی رقم معلوم نہ ہوسکی، معلوم بھی ہوگئی تونکالی نہیں جاسکی، نکال بھی دی تومستحقین تک پہنچائی نہیں گئی اوریہ سوچ کررکھ چھوڑی کہ جب کوئی آئے گاتب دیدوں گا، جرم آپ کی طرف سے ہورہاہے، مجرم آپ بن رہے ہیں، غریب کے چولھے عیدکے دن بھی دھویئں سے محروم ہوں گے توآپ کے گھرمیں خوشیوں شادمانیوں، عشرتوں، آسائشوں،راحتوں، استراحتوں کے دروازے کیونکرکھل سکتے ہیں؟ زکوۃ ہویاصدقہ مستحقین تک پہنچاناآپ کی ذمہ داری ہے اس ذمہ داری کواداکیجئے، قبل ازوقت اداکیجئے، نکلئے اورمستحقین کوتلاش کیجئے کہیں ایسانہ ہوجائے کہ آپ سے دیرہوجائے اورکسی کے گھرمیں عیدکے دن بھی اندھیرہوجائے
ناصرالدین مظاہری

Leave a Reply

Your email address will not be published.