رحمت ومغفرت کے لمحات!

Araria-Times

دیکھتے ہی دیکھتے پھر رحمت ورضوان اور مغفرت وغفران کے خصوصی لمحات آپہونچے،تلاوت وتراویح،اذکار ووظائف اور نوافل واوراد کے ذریعہ دل کی کثافتوں کو دور کرنے کا پھر وہی جانفزا موسم آگیا ہے،روحانی ترقیات کے بہت سارے اسباب فضل خدا وندی سے پھر حاصل ہورہے ہیں،قرب الٰہی کے حصول کے ذرائع پھرہاتھ آرہے ہیں،رحمت خداوندی پھر سے اپنے بندوں پر اور مہربان ہورہی ہے،رحمت کی مشکبار ہواؤںسے چمن زارآد میت معطر ومعنبر ہورہاہے،مغفرت وغفران کی خصوصی سوغات عطائے رب سے ملنے والی ہے،عتق من النیران(جہنم سے چھٹکارا)کا پروانۂ احکم الحاکمین حاصل ہونے والا ہے،گویا الطاف وعنایات ربانی کی موسلا دھار برسات سے کشت زار آدمیت پھر سے ہری بھری ہونے والی ہے،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ: ع
زمین شورہ سنبل برنیارد
بنجر زمین لالہ زار نہیں بنا کرتی،موسم میں برسات پورے خطۂ ارضی پر ہوتی ہے لیکن اس بارش کے اثرات انھیں زمینوں پر نمایاں ہوتے ہیں جن میں صلاحیت ہوتی ہے،ٹھیک اسی طرح خالق ارض وسماوات کی ان خصوصی عنایات اور نوازشوں سے وہی قلوب مستفید ہونگے جو باصلاحیت ہونگے اور اپنے اندر کچھ جذب کرنے کا مادہ رکھتے ہونگے،رحمت،مغفرت اورخلاصی ٔ جہنم کے ان مسعود لمحات سے بہرہ ور ہونے کے لئے ہمیں اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے،ایسی چیزوں سے اجتناب از حد ضروری ہے جو ان خصوصی عنایات کی راہ میں رکاوٹ بنیں،اللہ کے حضور ندامتوں کا اظہار،اکل حلال کا التزام،جھوٹ اورغیبت جیسے مہلکات سے مکمل پرہیزاور عبادتوں میں خاص رغبت وشوق یقیناً ان الطاف واکرام کا ہمیں اہل بنادیں گے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق مرحمت فرمائیں۔

روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ایسا عظیم الشان رکن سے جو بیک وقت روحانی اور جسمانی فوائد کی جامع عبادت ہے اور ان مخصوص ترین عبادتوں میں سے ایک ہے جو اسلام سے قبل امتوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے فرض فرمائی تھی جیسا کہ قرآن میں اس کی فرضیت سے آگاہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یا ایہا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ (سورہ البقرہ)
اے ایمان والو! تم پر روزہ اس طرح فرض کیا گیا جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا جو تم سے پہلے تھے شاید کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
مورخ اسلام سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ دوسری ملتوں میں روزہ کی تاریخ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہندوستان کو سب سے زیادہ قدامت کا دعویٰ ہے لیکن بَرَتْ یعنی روزہ کی بندش سے وہ بھی آزاد نہیں، ہر ہندی مہینہ کی گیارہویں تاریخ کو برہمنوں پر اکادشی کا روزہ ہے، اس حساب سے سال میں چوبیس (۲۴) روزے ہوئے، ہندوستان کے تمام مذاہب میں جینی دھرم میں سب سے زیادہ روزہ کی سخت شرائط ہیں، چالیس دن تک کا ان کے یہاں روزہ ہوتا ہے گجرات و دکن میں ہر سال جینی کئی کئی ہفتہ کا روزہ رکھتے ہیں، قدیم مصریوں کے یہاں بھی روزہ دیگر مذہبی تہواروں کے شمول میں نظر آتا ہے، یونان میں صرف عورتیں ’’تھسموفیرما‘‘ کی تیسری تاریخ کو روزے رکھتی تھیں، پارسی مذہب میں عام پیرووں پر عملاً روزہ فرض نہیں لیکن ان کی الہامی کتاب کی ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کا حکم ان کے یہاں موجود تھا یہودیوں کے یہاں بھی روزہ فریضہ الٰہی ہے۔
یہودی قانون کی رو سے سال میں روزہ کے لیے متعدد تاریخیں مخصوص ہیں عیسائی مذہب میں بھی آکر ہم کو روزہ سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ (مقالات سلیمان ۳؍ ۳۹-۲۳۸)

اسلام کی ہر عبادت انسانی فطرت کے عین مطابق اور انسان کے جسمانی و روحانی وجود کے لیے مفید اور نفع بخش ہے کیونکہ انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے ان دونوں کے اتصال سے انسان وجود میں آتا ہے محض جسم کو انسان نہیں کہیںگے اور صرف روح سے انسان کا تصور محال ہے لیکن روح اصل ہے اور جسم اس کے لیے ظرف ہے لہٰذا عبادات کابنیادی مقصد تو روح کی اصلاح اور اس کو فطرت پر قائم رکھنا ہے لیکن جب روح میں طہارت و لطافت پیدا ہوگی اور وہ ملکوتی صفات سے آراستہ ہوگی تو اس کے اثرات جسم پر یقینی طور سے پڑیں گے مگر اگر کسی عبادتی عمل کا اثر جسم پر مرتب ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہ روح بھی اس سے مستقید ہو اور اس عبادت کا روحانی نفع حاصل ہو، اس نفع کی حصولیابی کے لیے نیت و اخلاص کی شرط لگائی گئی ہے کہ جب کوئی عمل یا عبادت محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے جذبہ سے کیا جائے گا تو روح میں پاکیزگی اصلاح اور نورانیت پیدا ہوگی اور آخرت میں اس کا ثواب حاصل ہوگا مزید برآں جسمانی فوائد تو حاصل ہوں گے ہی۔
لہٰذا روزہ کی فرضیت کا مقصد دل کو تقویٰ کی صفت سے مزین کرنا ہے جو ہر عمل کو محض اللہ کے لیے کرانے کا محرک و موجب ہے اور جس دل میں خوف خدا ہو وہ معرفت حق سے منور اوریاد رب سے آباد ہو تو اسی کو قلب سلیم کہتے ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یوم لاینفع مال ولابنون إلا من اتی اللہ بقلب سلیم جس دن نہ مال نفع دے گا نہ اولاد مگر وہ شخص نفع میں رہے گا جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آیا اور قلب کی صلاح سے بدن کی صلاح ہے کیونکہ اعضاء وجوارح، قلب و دماغ کے تابع ہوتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی حکمت و اہمیت پر غور کیجئے۔
ان فی الجسد مضغۃ ان صلحت صلح الجسد کلہ وان فسدت فسد الجسد کلہ ألا وہی القلب۔ (رواہ)
بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ سدھر جائے تو سارا جسم سدھر جائے گا اور وہ بگڑگیا تو سارا جسم بگڑ جائے گا۔
ان باتوں کی روشنی میں روزہ کی فرضیت و مشروعیت کا سمجھنا کسی بھی ذی ہوش کے لیے آسان ہوگا اور روزہ کو محض ’’بھوکا‘‘ رہنے سے تعبیر نہیں کرے گا، بلکہ یہ بھوک خواہ پیٹ کی بھوک ہو یا نفس کی بھوک (یعنی کھانا پینا اور جماع کا چھوڑنا) قلب کی اصلاح کے لیے ضروری ہے روح کی تازگی اور بالیدگی کے لیے شرط ہے۔

یہی وجہ ہے کہ روزہ کو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنی طرف منسوب کیا ہے اس لیے روزہ کے ذریعہ بندہ اپنے دل میں اپنے خالق و مالک کو پاتا ہے جب روزہ کو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنے لیے قرار دیا ہے تو اس کا اجر بھی بلا تعیین مقدار اپنے ذمہ لیا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ہی اس کا اجر دوں گا تو اس کا حساب و مقدار ہم اپنے طور پر کسی صورت میں بھی نہیں لگاسکتے ہیں ہمارے اندازہ و گمان میں سمانے والا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے اعتبار سے عطا فرمائیں گے اس کے علاوہ روزہ کا جو اجر زبان رسالت سے بتایا گیا ہے اس میں چند یہ ہیں:
عن ابی ہریرہؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنب۔ (رواہ البخاری و مسلم)
لیکن یہ فضائل و فوائد اسی روزہ دار کو حاصل ہوں گے جس نے روزہ رکھنے کا حق اداکیا ہے اور ورزہ کی غرض و غایت کو ملحوظ رکھا ورنہ صرف بھوکے پیاسے رہنے اور ترک جماع سے کچھ حاصل نہیں جب کہ وہ روزہ رکھ کر جھوٹ بھی بولتا ہے غیبت بھی کرتا ہے اور فسق و فجور سے بھی باز نہیں آتا تو اللہ کے رسول ا نے فرمایا:
من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس ﷲ حاجۃ ان یدع طعامہ و شرابہ۔ (رواہ البخاری)
جس نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہیں کیا تو اللہ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
حکیم طارق محمود چغتائی سنت نبوی اور جدید سائنس میں روزہ کے موضوع پر مختلف ماہرین کے تجربات اور تحقیقات کی روشنی میں لکھتے ہیں:

روزہ کے بارے میں یورپین ماہرین مسلسل تحقیق کررہے ہیں حتی کہ وہ اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ روزہ جہاں جسمانی زندگی کو نئی روح اور توانائی بخشتا ہے وہاں اس سے بے شمار معاشی پریشانیاں دور ہوتی ہیں کیونکہ جب امراض کم ہوں گے تو ہسپتال بھی کم ہوں گے، ہسپتالوں کا کم ہونا پرسکون معاشرے کی علامت ہے، آج یورپ پھر پھرا کراس اسلام کی طرف لوٹ رہا ہے اور ہم یورپ کی اندھی تقلید میں دوڑتے چلے جارہے ہیں،پروفسیر مورپالڈ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پہچان ہیں انہوں نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا، کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولہ دیا ہے اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف یہی روزے کا فارمولہ ہی دیتاتو پھربھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی۔

میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہئے پھر میں نے روزے مسلمانوں کی طرز پر رکھنا شروع کردئے ہیں میں عرصہ دراز سے معدے کے ورم میں مبتلا تھا کچھ دنوں کے بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی پھر میں نے جسم میں کچھ اور تبدیلی بھی محسوس کی اور کچھ ہی عرصہ بعد میںنے اپنے جسم کو نارمل پایا۔ (ص۱۶۵)
انسانی معدہ روزہ کے ذریعے جو بھی اثرات حاصل کرتا ہے وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں، اس ذریعہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر طور پر متوازن ہوجاتی ہیں، روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پھٹوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔

اس طرح روزہ وہ مہتم بالشان عبادت ہے جس کے روحانی،ایمانی، اخلاقی اور معاشرتی فوائد اور صحت و تندرستی سے متعلق طبی و جسمانی منافع شمار سے باہر ہیںیہ چند نمونے تھے جو ہم نے ذکر کئے ہیں جوروزہ کی عنداللہ اہمیت و عظمت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک جدید طبقہ خاص کر شہروں میں روزہ ترک کرنے کی راہ پر چل پڑا ہے تروایح کا اہتمام جس قدر شوق سے کیا جاتا تھا اس میں بڑی کوتاہی ہورہی ہے،اللہ اس سے محفوظ رکھے اور اس عظیم عبادت کو اس کی روح کے ساتھ ادا کرنے کا حوصلہ اور جذبہ بخشے، آمین۔

تحریر:عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
7895886868
abdullahkhalid59@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published.