وجہ تسمیہ:
’’عید ‘‘عربی کے لفظ عود سے مشتق ہے جس کے معنیٰ ’’ خوشی’’اور’’ لوٹنا‘‘کے ہیں،کیونکہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار آتا ہے خوشیاں دیتا ہے۔
راغب اصفہانیؒ رقم کرتے ہیں کہ:
’’ لفظ عید لغت کے اعتبار سے اس دن کو کہا جاتا ہے جو بار بار لوٹ کر آئے‘‘۔ اور اصطلاح میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کو کہا جاتا ہے ۔(المفردات )
علامہ شامیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’عید کو عید اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہرسال اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں پر انواع و اقسام کے انعامات و احسانات لوٹاتا ہے۔ اس دن فرخ و سرور اور نشاط و انبساط منانا لوگوں کی عادت ہے۔
’’عید ‘‘عربی کے لفظ عود سے مشتق ہے جس کے معنیٰ ’’ خوشی’’اور’’ لوٹنا‘‘کے ہیں،کیونکہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار آتا ہے خوشیاں دیتا ہے۔
راغب اصفہانیؒ رقم کرتے ہیں کہ:
’’ لفظ عید لغت کے اعتبار سے اس دن کو کہا جاتا ہے جو بار بار لوٹ کر آئے‘‘۔ اور اصطلاح میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کو کہا جاتا ہے ۔(المفردات )
علامہ شامیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’عید کو عید اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہرسال اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں پر انواع و اقسام کے انعامات و احسانات لوٹاتا ہے۔ اس دن فرخ و سرور اور نشاط و انبساط منانا لوگوں کی عادت ہے۔
عہدقدیم میں عید:
عیدکی ایک مستقل تاریخ ہے ،مؤرخین کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جنت کوعید کے دن پیدافرمایا،شجرطوبیٰ عیدکے دن لگایاگیا، حضرت جبرئیل کووحی پہنچانے کے لئے عیدکے دن منتخب فرمایاگیا،فرعون کے جادوگروں کوہدایت کانورعیدہی کے دن عطاہوا،عیدکاتصورحضرت ابراہیم،حضرت موسیٰ اورحضرت عیسی علیہم السلام کے عہدمیں بھی ملتاہے اور’’العیدان واجبتان علی کل حالم ‘‘کافرمان عالی سن دوہجری میں صادرہوا ۔
یوں تورمضان المبارک کاہردن’’ہرشب شب قدر ہے ہرروزروزِعید‘‘ کامصداق ہے اوراس کا ہر لمحہ مسلمانوں کے لئے مسرتوں کا پیغام لئے ہوئے ہے ۔
ساقیا! عید ہے لا بادہ سے مینا بھرکے
کہ مئے شام پیاسے ہیں مہینا بھرکے
لیکن آنے والے دنوں میں ایک دن ایسابھی ہے جس ’’کو عید‘‘کہاجاتاہے ، ہرسال کی طرح اس سال بھی واردہورہاہے ۔
عیدکی ایک مستقل تاریخ ہے ،مؤرخین کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جنت کوعید کے دن پیدافرمایا،شجرطوبیٰ عیدکے دن لگایاگیا، حضرت جبرئیل کووحی پہنچانے کے لئے عیدکے دن منتخب فرمایاگیا،فرعون کے جادوگروں کوہدایت کانورعیدہی کے دن عطاہوا،عیدکاتصورحضرت ابراہیم،حضرت موسیٰ اورحضرت عیسی علیہم السلام کے عہدمیں بھی ملتاہے اور’’العیدان واجبتان علی کل حالم ‘‘کافرمان عالی سن دوہجری میں صادرہوا ۔
یوں تورمضان المبارک کاہردن’’ہرشب شب قدر ہے ہرروزروزِعید‘‘ کامصداق ہے اوراس کا ہر لمحہ مسلمانوں کے لئے مسرتوں کا پیغام لئے ہوئے ہے ۔
ساقیا! عید ہے لا بادہ سے مینا بھرکے
کہ مئے شام پیاسے ہیں مہینا بھرکے
لیکن آنے والے دنوں میں ایک دن ایسابھی ہے جس ’’کو عید‘‘کہاجاتاہے ، ہرسال کی طرح اس سال بھی واردہورہاہے ۔
بخشش ومغفرت کے پروانے:
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ’’ماہ رمضان المقدس کی ہر شب طلوع صبح تک ایک منادی کرنے والا نداء کرتا ہے کہ اے بھلائی کے طلب گار نیکی کو پورا کرو اور خوش ہو اور شر کے طلب گاروں گناہوں سے رک جاؤ اور عبرت کیلئے غور سے دیکھ۔ اور ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا جس کی مغفرت کی جائے ہے کوئی توبہ کرنے والا جس کی توبہ قبول کی جائے ہے کوئی دعا کرنے والا جس کی دعا قبول کی جائے ہے کوئی سوالی (سائل) جس کا سوال پورا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی ہر شب ۶۰؍ہزار آدمیوں کو آزادیٔ جہنم سے نوازتا ہے اور جب شوال المکرم آتا ہے تو جس قدر سارے ماہ میں لوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے اس کے برابر عید کے دن لوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے ’’۔(زواجر جلد 1ص 101)
عید وہ نعمت عظمیٰ ہے کہ جس کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ’’عید کے دن اللہ تعالیٰ زمین پر فرشتوں کا نزول کرتا ہے جو منادی کرتے ہیں کہ اے غلامان محمدﷺ چلو اور اپنے رب کے حضور میں آؤ جو کہ لازوال ہے تھوڑے سے تھوڑا عمل بھی قبول فرماتا ہے اور بڑے سے بڑا گناہ معاف بھی کرتا ہے پھر سب لوگ میدان عیدگاہ میں جمع ہوتے ہیں رب کریم خوش و خرم ہو کر ملائکہ سے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو!دیکھا کہ امت محمد یہ پر میں نے رمضان کے روزے فرض کیے انہوں نے مہینے بھر کے روزے رکھے مسجدوں کو آباد کیا اور میرے کلام مجید کی تلاوت کی اپنی خواہشوں کو روکا شرمگاہوں کی حفاظت کی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی اب اظہار تشکر کے لئے میری بارگاہ میں حاضر ہیں میں ان کو بہشت میں ان کے اعمال کا بدلہ دوں گا تم عیدگاہ سے پاک صاف ہو کر نکلو گے تم مجھ سے خوش رہو میں تم سے راضی ہوں اور یہ ارشادات سن کر ملائکہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں اور اس کی امت محمدیہ کو بشارت سناتے ہیں۔(تذکرۃ الواعظین)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ’’ماہ رمضان المقدس کی ہر شب طلوع صبح تک ایک منادی کرنے والا نداء کرتا ہے کہ اے بھلائی کے طلب گار نیکی کو پورا کرو اور خوش ہو اور شر کے طلب گاروں گناہوں سے رک جاؤ اور عبرت کیلئے غور سے دیکھ۔ اور ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا جس کی مغفرت کی جائے ہے کوئی توبہ کرنے والا جس کی توبہ قبول کی جائے ہے کوئی دعا کرنے والا جس کی دعا قبول کی جائے ہے کوئی سوالی (سائل) جس کا سوال پورا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی ہر شب ۶۰؍ہزار آدمیوں کو آزادیٔ جہنم سے نوازتا ہے اور جب شوال المکرم آتا ہے تو جس قدر سارے ماہ میں لوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے اس کے برابر عید کے دن لوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے ’’۔(زواجر جلد 1ص 101)
عید وہ نعمت عظمیٰ ہے کہ جس کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ’’عید کے دن اللہ تعالیٰ زمین پر فرشتوں کا نزول کرتا ہے جو منادی کرتے ہیں کہ اے غلامان محمدﷺ چلو اور اپنے رب کے حضور میں آؤ جو کہ لازوال ہے تھوڑے سے تھوڑا عمل بھی قبول فرماتا ہے اور بڑے سے بڑا گناہ معاف بھی کرتا ہے پھر سب لوگ میدان عیدگاہ میں جمع ہوتے ہیں رب کریم خوش و خرم ہو کر ملائکہ سے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو!دیکھا کہ امت محمد یہ پر میں نے رمضان کے روزے فرض کیے انہوں نے مہینے بھر کے روزے رکھے مسجدوں کو آباد کیا اور میرے کلام مجید کی تلاوت کی اپنی خواہشوں کو روکا شرمگاہوں کی حفاظت کی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی اب اظہار تشکر کے لئے میری بارگاہ میں حاضر ہیں میں ان کو بہشت میں ان کے اعمال کا بدلہ دوں گا تم عیدگاہ سے پاک صاف ہو کر نکلو گے تم مجھ سے خوش رہو میں تم سے راضی ہوں اور یہ ارشادات سن کر ملائکہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں اور اس کی امت محمدیہ کو بشارت سناتے ہیں۔(تذکرۃ الواعظین)
یوم عیدیایوم احتساب:
اس دن کو عام مسلمانوں کی زبان میں ’’عید‘‘اہل علم کی زبان میں یوم الاجرۃ‘‘صوفیاء کی اصطلاح میں ’’یوم الاحتساب‘‘ کہاجاتاہے،یہ دن عام مسلمانوں کے لئے تو بہرحال عیدکادن ہے لیکن جو لوگ خوردبین ہیں،اللہ کے احکام ومصالح اور اس کی نعمتوں کے قدردان ہیں،اللہ کی بتلائی ہوئی چیزوں پرسرتسلیم خم کرنے والے اورہروقت ذکرخدامیں مست رہنے والے ہیں ان کے لئے یہ دن باعث فکروالم اورلائق رنج وغم ہے ،اس کو یوں سمجھاجاسکتاہے کہ جب آیت کریمہ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینانازل ہوئی تو عام صحابہ کرام اپنی تحریک کے اتمام اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت غیرمترقبہ پرپھولے نہیں سمائے لیکن جن صحابۂ کرام کواللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل سے نوازاتھااورجن کو عقل سلیم بھی وافرمقدرامیں عطافرمائی تھی ان حضرات کو اس آیت کریمہ سے فکراور تشویش لاحق ہوگئی کیونکہ جب کوئی منزل مکمل ہوجاتی ہے تواس پر ،خستگی،بوسیدگی، کہنگی اورشکست وریخت اپناقبضہ جمانا شروع کردیتی ہیں،اس لئے منزل کی تکمیل گویااس کی تخریب کی ابتداہوتی ہے،اسی لئے حضرت علی ؓکا مشہورمقولہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی عمرپرخوش ہوتے ہیں کہ میرابچہ اتنے سال کاہوگیاحال آنکہ اس بچہ کی طبعی عمرمیں سے اتنے سال کم ہوگئے ہیں۔
عیدکاآنا گویاروزوں کے جانے کی تمہیداورعلامت ہے ،صالحین کیلئے عیدالفطرکادن بھی ریاضت نفس، فکرخلق، تضرع ،الحاح وزاری،محاسبۂ نفس اوراحتساب کے لئے ہوتاہے کہ جانے والے رمضان المبارک کاحق ہم سے اداہوسکاہے یانہیں۔
علامہ ابن قیم جوزی کاارشادگرامی ہے ؎
واجعلْ صِیامکَ قبل لقیاہاویو
مَ الوصلِ یوم الفِطرمن رمضان
یوم عید:اجرت پانے والوں کے لئے احتساب کی دعوت ہے کہ جوکام ہمیں سپردہواتھااس کو پورا پوراکیاجاسکاہے یانہیں،روزے جوہم پر فرض کئے گئے تھے اس پر غوروفکرکہ ہم نے روزوں کی ادائیگی میں اس کی روح کو بھی ملحوظ رکھا ہے یانہیں اور عیدکے دن یہ فکرکہ آج مسلمانوں کے تمام گھروں میں خوشیوں اورمسرتوں کی حکم رانی ہے کہ نہیں؟…ایساتونہیں کہ ہندوستان میں مسلمان عیدالفطرکی خوشیوں میں مصروف ہوں اور فلسطین کے مسلمان گھروں سے بے گھرکئے جارہے ہوں…ہماری بہنیں ہم سے عیدکے دن زرق برق کپڑوں کی فرمائش کرہی ہوں اورعراق میں اسلام دشمن فوجیوں کے ذریعہ ہماری مسلمان بہنوںکے سروں سے ان کے دوپٹے کھینچے جارہے ہوں…ہمارے بچے عیدکے دن شیرینی کھانے میں مصروف ہوں اوردنیاکے مختلف حصوں میں ہمارے لاکھوں بچے خشک روٹیوں کوترس رہے ہوں…ہوسکتاہے کہ ہم لوگ عیدکے دن آپس میں گلے مل مل کر خوشی کا اظہارکررہے ہوں اور بوسینیا،چیچنیا،لبنان اورسوات میں ہمارے بھائی موت کے گلے لگ رہے ہوں؟…عیدہم کو بتاتی ہے کہ یہ دن صرف ان ہی لوگوں کیلئے ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے سرتابی،انحراف اوربغاوت نہ کرتے ہوں،جن کا دل مسلمان بھائی کے لئے ہردم اور ہمہ دم پسیجتارہتاہو،اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اخلاق کریمہ سے مزین ہو،اپنے پاس پڑوس کوہماری ذات سے مسرتیں مل رہی ہوں،پوری دنیاکامسلمان ہماری امدادواعانت اور ہمارے جذبہ ہمدردی سے مستفید ہورہاہو، نیکیاں ہمارے لئے پروانہ وارجان نثارہوتی ہوں،ہماری مسلمان مائیں ہماری بلائیں لیتی ہوں اورہماری مسلمان بہنیں ہمارے لئے دعاء خیرکرتی ہوں۔
نفس اورشیطان کورلانے کادن
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
’’ جس نے عیدین کی رات کو قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا جس دن لوگوں کے دل مر جائیں گے ’’۔(سنن ابن ماجہ )
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ
’’وہ افراد جو پانچ را توں کو قیام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ان کیلئے اللہ تعالیٰ کے پاس انعام و اکرام ہیں اللہ ان کیلئے جنت کو واجب کرتا ہے اور جہنم کو حرام کرتا ہے اور پانچ راتیں یہ ہیں (۱)ماہ ذوالحجہ کی آٹھویں(۲)نویں اور دسویں رات(۴) عید الفطر کی رات (۵) شعبان المعظم کی پندرھویں رات ‘‘۔
(الترغیب والترہیب )
عید کے دن شیطان بڑا روتا ہے واویلے کرتا ہے چنانچہ حضرت وہب بن منبہؒ فرماتے ہیں کہ ابلیس عید کے دن نوحہ وزاری کرتا ہے تو شیطان کی ساری ذریت اس کے سامنے جمع ہو جاتی ہے تو دشمن ِانسان گویا ہوتا ہے کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو بخش دیا ہے لہذا اے میری ذریت تم انہیں دوبارہ گناہوں اور خواہشات نفسانیہ میں مشغول کرو‘‘۔(درۃالناصحین ص 271، مکاشفۃ القلوب ص 651)
اس دن کو عام مسلمانوں کی زبان میں ’’عید‘‘اہل علم کی زبان میں یوم الاجرۃ‘‘صوفیاء کی اصطلاح میں ’’یوم الاحتساب‘‘ کہاجاتاہے،یہ دن عام مسلمانوں کے لئے تو بہرحال عیدکادن ہے لیکن جو لوگ خوردبین ہیں،اللہ کے احکام ومصالح اور اس کی نعمتوں کے قدردان ہیں،اللہ کی بتلائی ہوئی چیزوں پرسرتسلیم خم کرنے والے اورہروقت ذکرخدامیں مست رہنے والے ہیں ان کے لئے یہ دن باعث فکروالم اورلائق رنج وغم ہے ،اس کو یوں سمجھاجاسکتاہے کہ جب آیت کریمہ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینانازل ہوئی تو عام صحابہ کرام اپنی تحریک کے اتمام اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت غیرمترقبہ پرپھولے نہیں سمائے لیکن جن صحابۂ کرام کواللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل سے نوازاتھااورجن کو عقل سلیم بھی وافرمقدرامیں عطافرمائی تھی ان حضرات کو اس آیت کریمہ سے فکراور تشویش لاحق ہوگئی کیونکہ جب کوئی منزل مکمل ہوجاتی ہے تواس پر ،خستگی،بوسیدگی، کہنگی اورشکست وریخت اپناقبضہ جمانا شروع کردیتی ہیں،اس لئے منزل کی تکمیل گویااس کی تخریب کی ابتداہوتی ہے،اسی لئے حضرت علی ؓکا مشہورمقولہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی عمرپرخوش ہوتے ہیں کہ میرابچہ اتنے سال کاہوگیاحال آنکہ اس بچہ کی طبعی عمرمیں سے اتنے سال کم ہوگئے ہیں۔
عیدکاآنا گویاروزوں کے جانے کی تمہیداورعلامت ہے ،صالحین کیلئے عیدالفطرکادن بھی ریاضت نفس، فکرخلق، تضرع ،الحاح وزاری،محاسبۂ نفس اوراحتساب کے لئے ہوتاہے کہ جانے والے رمضان المبارک کاحق ہم سے اداہوسکاہے یانہیں۔
علامہ ابن قیم جوزی کاارشادگرامی ہے ؎
واجعلْ صِیامکَ قبل لقیاہاویو
مَ الوصلِ یوم الفِطرمن رمضان
یوم عید:اجرت پانے والوں کے لئے احتساب کی دعوت ہے کہ جوکام ہمیں سپردہواتھااس کو پورا پوراکیاجاسکاہے یانہیں،روزے جوہم پر فرض کئے گئے تھے اس پر غوروفکرکہ ہم نے روزوں کی ادائیگی میں اس کی روح کو بھی ملحوظ رکھا ہے یانہیں اور عیدکے دن یہ فکرکہ آج مسلمانوں کے تمام گھروں میں خوشیوں اورمسرتوں کی حکم رانی ہے کہ نہیں؟…ایساتونہیں کہ ہندوستان میں مسلمان عیدالفطرکی خوشیوں میں مصروف ہوں اور فلسطین کے مسلمان گھروں سے بے گھرکئے جارہے ہوں…ہماری بہنیں ہم سے عیدکے دن زرق برق کپڑوں کی فرمائش کرہی ہوں اورعراق میں اسلام دشمن فوجیوں کے ذریعہ ہماری مسلمان بہنوںکے سروں سے ان کے دوپٹے کھینچے جارہے ہوں…ہمارے بچے عیدکے دن شیرینی کھانے میں مصروف ہوں اوردنیاکے مختلف حصوں میں ہمارے لاکھوں بچے خشک روٹیوں کوترس رہے ہوں…ہوسکتاہے کہ ہم لوگ عیدکے دن آپس میں گلے مل مل کر خوشی کا اظہارکررہے ہوں اور بوسینیا،چیچنیا،لبنان اورسوات میں ہمارے بھائی موت کے گلے لگ رہے ہوں؟…عیدہم کو بتاتی ہے کہ یہ دن صرف ان ہی لوگوں کیلئے ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے سرتابی،انحراف اوربغاوت نہ کرتے ہوں،جن کا دل مسلمان بھائی کے لئے ہردم اور ہمہ دم پسیجتارہتاہو،اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اخلاق کریمہ سے مزین ہو،اپنے پاس پڑوس کوہماری ذات سے مسرتیں مل رہی ہوں،پوری دنیاکامسلمان ہماری امدادواعانت اور ہمارے جذبہ ہمدردی سے مستفید ہورہاہو، نیکیاں ہمارے لئے پروانہ وارجان نثارہوتی ہوں،ہماری مسلمان مائیں ہماری بلائیں لیتی ہوں اورہماری مسلمان بہنیں ہمارے لئے دعاء خیرکرتی ہوں۔
نفس اورشیطان کورلانے کادن
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
’’ جس نے عیدین کی رات کو قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا جس دن لوگوں کے دل مر جائیں گے ’’۔(سنن ابن ماجہ )
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ
’’وہ افراد جو پانچ را توں کو قیام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ان کیلئے اللہ تعالیٰ کے پاس انعام و اکرام ہیں اللہ ان کیلئے جنت کو واجب کرتا ہے اور جہنم کو حرام کرتا ہے اور پانچ راتیں یہ ہیں (۱)ماہ ذوالحجہ کی آٹھویں(۲)نویں اور دسویں رات(۴) عید الفطر کی رات (۵) شعبان المعظم کی پندرھویں رات ‘‘۔
(الترغیب والترہیب )
عید کے دن شیطان بڑا روتا ہے واویلے کرتا ہے چنانچہ حضرت وہب بن منبہؒ فرماتے ہیں کہ ابلیس عید کے دن نوحہ وزاری کرتا ہے تو شیطان کی ساری ذریت اس کے سامنے جمع ہو جاتی ہے تو دشمن ِانسان گویا ہوتا ہے کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو بخش دیا ہے لہذا اے میری ذریت تم انہیں دوبارہ گناہوں اور خواہشات نفسانیہ میں مشغول کرو‘‘۔(درۃالناصحین ص 271، مکاشفۃ القلوب ص 651)
تحفۂ عیدملنے کی وجہ:
کیاہم نے غورکیاکہ یہ عیدکس لئے ہمیں عطاکی گئی ہے؟…کیاشیرینی کھانے کے لئے…کباب کے کھانے لئے؟…زرق برق ملبوسات کے لئے؟…ایک دوسرے کوتقبل اللّٰہ مناومنک وغفرلناولککہنے کے لئے؟…عیدکے رنگ برنگے کارڈوں کی گفٹ کے لئے ؟…نہیں! ایساکچھ بھی نہیں ہے !!
ہمارے اسلاف نے اپنے اخلاف کواس سلسلہ میں بھی اپنے تجربات وہدایات سے محروم نہیں کیااورفرمایاکہ
لیس العیدلمن لبس الجدید
انماالعیدلمن امن من الوعید
(عیداس کے لئے نہیں ہے جس نے نئے کپڑے پہنے،عیداس کے لئے ہے جودوزخ سے امن میں ہو)
لیس العیدلمن تبخربالعود
انماالعیدللتائب الذی لایعود
(عیداس کیلئے نہیں ہے جوعودسلگاکرخوشبوکرے،عیداس کے لئے ہے جوگناہوں سے ایسی توبہ کرے کہ پھرگناہ کی طرف نہ لوٹے)
لیس العیدلمن تزین بزینۃ الدنیا
انماالعیدلمن تزودوبزادالتقویٰ
ْْْ(عیداس کیلئے نہیں ہے جس نے دنیاوی آرائش کاسازوسامان کیا،عیداس کیلئے ہے جس نے زادآخرت (تقویٰ)اختیارکیا)
لیس العیدلمن رکب المطایا
انماالعیدلمن ترک الخطایا
ْْْ(عیداس کیلئے نہیں ہے جوسواریوں پرسوارہوا،عیداس کے لئے ہے جس نے پورے طورپرگناہوں کوترک کردیا)
لیس العیدلمن بسط البساط
انماالعیدلمن جاوزالصراط
ْْْ(عیداس کیلئے نہیں ہے جس نے فرش بچھایا،عیداس کیلئے ہے جوپل صراط سے پارہوگیا)
عیدکے دن بہت سے لوگ خوشی اورمسرت میں تعلیمات اسلامی کوہی فراموش کردیتے ہیں،بہت سوں کی تونمازظہر بھی قضاہوجاتی ہے،سامان خوردونوش کی خریداری میں نے ایمانیاں ہوتی ہیں،ناپ تول میں کمی عام بات ہوتی ہے،ملاوٹی اشیاء فروخت کی جاتی ہیں اوریہ سب اس دن ہورہاہوتاہے جس دن کواللہ تعالیٰ نے ’’یوم الاحتساب‘‘بنایاہے؟بہت ّْ َٰؑ رمضان کی عزت کا لحاظ نہیںرکھتے ،رمضان المبارک کی بے حرمتی کرتے ہیں اس کے گواہ ہمارے اخبارات ہیں،یہی عناصر عید کے دن اور بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ بے حیائی اور فحاشی میں شامل ہوتے ہیں۔ ہر طرف رقص وسرود کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔ جہاں تک ہمارے گھروں کی عورتیں (ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں )کی بات ہے تو وہ سرعام مردوں کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں ان کی عادات و اطوار ان کا لباس شرم ناک ہوتا ہے۔ سنبھل جائیے اور سوچئے اور فحاشی و عریانی کے خلاف جہاد کیجیے۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’جب عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ کے سامنے اپنے بندوں کی عبادت پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جو اپنی مزدوری پوری پوری ادا کرے ؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری پوری ادا کی جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ میرے غلاموں اور میری باندیوں نے میرا فریضہ پورا کیا پھر دعا کے لئے چلاتے ہوئے عید گاہ کی طرف نکلے ہیں میری عزت و جلال اور بلندی مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا پھر فرماتا ہے اے لوگوں واپس جاؤ میں نے تمہارے گناہ بخش دیے ہیں اور تمہاری بدیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے ‘‘۔
عید الفطر اور عید الاضحیٰ ہمارے لیئے عید سعید ہیں ہم ان عیدوں کو وعید بنا رہے ہیں ، اللہ کے بندو، عید میٹھا کھانا کھانا، نئے کپڑے پہننے کا نام نہیں۔ دین اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس لئے اس نے سب کے ساتھ بھلائی کرنے کا درس دیا ہے اس میں امیر و غریب گورا یا کالا رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہیں ہے اس نے عید سعید کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت صرف محود طبقہ کو نہیں دی ہے بلکہ اپنے تمام پیروکاروں کو اس نعمت عظمیٰ کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہوں گے مگر جو غربا ء و مساکین ہیں وہ عید سے کس طرح لطف اندوز ہوں گے ؟
کیاہم نے غورکیاکہ یہ عیدکس لئے ہمیں عطاکی گئی ہے؟…کیاشیرینی کھانے کے لئے…کباب کے کھانے لئے؟…زرق برق ملبوسات کے لئے؟…ایک دوسرے کوتقبل اللّٰہ مناومنک وغفرلناولککہنے کے لئے؟…عیدکے رنگ برنگے کارڈوں کی گفٹ کے لئے ؟…نہیں! ایساکچھ بھی نہیں ہے !!
ہمارے اسلاف نے اپنے اخلاف کواس سلسلہ میں بھی اپنے تجربات وہدایات سے محروم نہیں کیااورفرمایاکہ
لیس العیدلمن لبس الجدید
انماالعیدلمن امن من الوعید
(عیداس کے لئے نہیں ہے جس نے نئے کپڑے پہنے،عیداس کے لئے ہے جودوزخ سے امن میں ہو)
لیس العیدلمن تبخربالعود
انماالعیدللتائب الذی لایعود
(عیداس کیلئے نہیں ہے جوعودسلگاکرخوشبوکرے،عیداس کے لئے ہے جوگناہوں سے ایسی توبہ کرے کہ پھرگناہ کی طرف نہ لوٹے)
لیس العیدلمن تزین بزینۃ الدنیا
انماالعیدلمن تزودوبزادالتقویٰ
ْْْ(عیداس کیلئے نہیں ہے جس نے دنیاوی آرائش کاسازوسامان کیا،عیداس کیلئے ہے جس نے زادآخرت (تقویٰ)اختیارکیا)
لیس العیدلمن رکب المطایا
انماالعیدلمن ترک الخطایا
ْْْ(عیداس کیلئے نہیں ہے جوسواریوں پرسوارہوا،عیداس کے لئے ہے جس نے پورے طورپرگناہوں کوترک کردیا)
لیس العیدلمن بسط البساط
انماالعیدلمن جاوزالصراط
ْْْ(عیداس کیلئے نہیں ہے جس نے فرش بچھایا،عیداس کیلئے ہے جوپل صراط سے پارہوگیا)
عیدکے دن بہت سے لوگ خوشی اورمسرت میں تعلیمات اسلامی کوہی فراموش کردیتے ہیں،بہت سوں کی تونمازظہر بھی قضاہوجاتی ہے،سامان خوردونوش کی خریداری میں نے ایمانیاں ہوتی ہیں،ناپ تول میں کمی عام بات ہوتی ہے،ملاوٹی اشیاء فروخت کی جاتی ہیں اوریہ سب اس دن ہورہاہوتاہے جس دن کواللہ تعالیٰ نے ’’یوم الاحتساب‘‘بنایاہے؟بہت ّْ َٰؑ رمضان کی عزت کا لحاظ نہیںرکھتے ،رمضان المبارک کی بے حرمتی کرتے ہیں اس کے گواہ ہمارے اخبارات ہیں،یہی عناصر عید کے دن اور بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ بے حیائی اور فحاشی میں شامل ہوتے ہیں۔ ہر طرف رقص وسرود کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔ جہاں تک ہمارے گھروں کی عورتیں (ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں )کی بات ہے تو وہ سرعام مردوں کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں ان کی عادات و اطوار ان کا لباس شرم ناک ہوتا ہے۔ سنبھل جائیے اور سوچئے اور فحاشی و عریانی کے خلاف جہاد کیجیے۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’جب عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ کے سامنے اپنے بندوں کی عبادت پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جو اپنی مزدوری پوری پوری ادا کرے ؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری پوری ادا کی جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ میرے غلاموں اور میری باندیوں نے میرا فریضہ پورا کیا پھر دعا کے لئے چلاتے ہوئے عید گاہ کی طرف نکلے ہیں میری عزت و جلال اور بلندی مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا پھر فرماتا ہے اے لوگوں واپس جاؤ میں نے تمہارے گناہ بخش دیے ہیں اور تمہاری بدیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے ‘‘۔
عید الفطر اور عید الاضحیٰ ہمارے لیئے عید سعید ہیں ہم ان عیدوں کو وعید بنا رہے ہیں ، اللہ کے بندو، عید میٹھا کھانا کھانا، نئے کپڑے پہننے کا نام نہیں۔ دین اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس لئے اس نے سب کے ساتھ بھلائی کرنے کا درس دیا ہے اس میں امیر و غریب گورا یا کالا رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہیں ہے اس نے عید سعید کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت صرف محود طبقہ کو نہیں دی ہے بلکہ اپنے تمام پیروکاروں کو اس نعمت عظمیٰ کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہوں گے مگر جو غربا ء و مساکین ہیں وہ عید سے کس طرح لطف اندوز ہوں گے ؟
عیداوراعتدال:
اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں کسی تہواربرائے تہوارکاکوئی تصورنہیں ہے؟ اسلام میں بدعات وخرافات اورمنکرات ومنہیات پرروک ٹوک کاجس قدرخیال رکھاگیاہے، اتناکسی مذہب اور قوم میں نہیں رکھاگیا،اسلام نے محسوس کیاکہ نوروزاورمہرجان جیسے مشرکانہ تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت کااندیشہ ہے توفوراًاس کامتبادل ’’عیدین‘‘ کی شکل میں امت کودے دیاگیا،اسلام نے دیکھا کہ عیدین میں بھی لوگ افراط وتفریط سے کام لے سکتے ہیں توکچھ راہنمااصول وآئین اس باب میں وضع کردئے گئے تاکہ جادۂ اعتدال سے انحراف،سنت نبوی سے بغاوت اورافراط وتفریط کاباب ہی بندہوجائے،اسلام کواس کی انھیں خوبیوں نے دیگراقوام پرامتیازاور تفوق بخشا ہواہے ،چنانچہ معانقہ جوایک سنت چیزہے اس میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیاگیاکہ عیدکی نمازکے بعدمعانقہ کوضروری سمجھ لینابدعت ہے،عیدکے دن مٹھائی اورسوئیاں ایک مباح اورسنت کا متبادل ہونے کے باوجودان چیزوں کو ضروری تصورکرلینا بھی قبیح رسوم میں شمارکیاگیا ہے،عیدین میں عورتوں کے لئے عیدگاہ جانااور عبادت کرنااحادیث سے ثابت ہے لیکن شیطانی مکروفریب، ابلیسی دجل وکیداورشہوانی جذبات کے باعث فتنوں سے بچنے اورتقویٰ کی زندگی اختیارکرنے کے پیش نظر فقہانے منع کردیاکہ عورتیں عام مساجدکی طرح عیدگاہ بھی نہ جائیں کیونکہ اس سے فتنہ پیداہونے کاخدشہ اور اندیشہ ہے،غرض اسلام نے فتنوں کواس کے سرابھارنے سے پہلے ہی کچلنے کو اپنادستور،معمول اورفرض تصور کیاہواہے۔
اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں کسی تہواربرائے تہوارکاکوئی تصورنہیں ہے؟ اسلام میں بدعات وخرافات اورمنکرات ومنہیات پرروک ٹوک کاجس قدرخیال رکھاگیاہے، اتناکسی مذہب اور قوم میں نہیں رکھاگیا،اسلام نے محسوس کیاکہ نوروزاورمہرجان جیسے مشرکانہ تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت کااندیشہ ہے توفوراًاس کامتبادل ’’عیدین‘‘ کی شکل میں امت کودے دیاگیا،اسلام نے دیکھا کہ عیدین میں بھی لوگ افراط وتفریط سے کام لے سکتے ہیں توکچھ راہنمااصول وآئین اس باب میں وضع کردئے گئے تاکہ جادۂ اعتدال سے انحراف،سنت نبوی سے بغاوت اورافراط وتفریط کاباب ہی بندہوجائے،اسلام کواس کی انھیں خوبیوں نے دیگراقوام پرامتیازاور تفوق بخشا ہواہے ،چنانچہ معانقہ جوایک سنت چیزہے اس میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیاگیاکہ عیدکی نمازکے بعدمعانقہ کوضروری سمجھ لینابدعت ہے،عیدکے دن مٹھائی اورسوئیاں ایک مباح اورسنت کا متبادل ہونے کے باوجودان چیزوں کو ضروری تصورکرلینا بھی قبیح رسوم میں شمارکیاگیا ہے،عیدین میں عورتوں کے لئے عیدگاہ جانااور عبادت کرنااحادیث سے ثابت ہے لیکن شیطانی مکروفریب، ابلیسی دجل وکیداورشہوانی جذبات کے باعث فتنوں سے بچنے اورتقویٰ کی زندگی اختیارکرنے کے پیش نظر فقہانے منع کردیاکہ عورتیں عام مساجدکی طرح عیدگاہ بھی نہ جائیں کیونکہ اس سے فتنہ پیداہونے کاخدشہ اور اندیشہ ہے،غرض اسلام نے فتنوں کواس کے سرابھارنے سے پہلے ہی کچلنے کو اپنادستور،معمول اورفرض تصور کیاہواہے۔
عیدکے دن خرافات:
عیدکوتہوارسے زیادہ عبادت سمجھاجائے توعیدکی برکات میں اضافہ اور حسنات میں زیادتی ہوگی، عیدکے دن دورحاضرکے مروجہ کھیل کرکٹ،فٹ بال،بالی وال،شطرنج،چوسر،گنجفہ،ٹینس، کبوتربازی، پتنگ بازی، وغیرہ واہیات کھیلوں کی شریعت میں نہ توکوئی گنجائش ہے اورنہ ہی ان کھیلوں سے کوئی مذہبی فائدہ ، اس کے برعکس نیزہ بازی،گھوڑسواری،دوڑاورشرعی لباس میں تیراکی وکبڈی جیسے کھیلوں سے اعضاوجوارح کی مضبوطی اور صحت وتندرستی کے علاوہ اسلامی قوت وشوکت کابہترین مظاہرہ ہوتاہے اوردشمنان اسلام مسلمانوں کی طاقت وقوت سے مرعوب ومغلوب ہوتے ہیں۔
عیدکوتہوارسے زیادہ عبادت سمجھاجائے توعیدکی برکات میں اضافہ اور حسنات میں زیادتی ہوگی، عیدکے دن دورحاضرکے مروجہ کھیل کرکٹ،فٹ بال،بالی وال،شطرنج،چوسر،گنجفہ،ٹینس،
لطیف نکتہ:
بہرحال اللہ تعالیٰ نے عیدین کودوعظیم الشان ارکان کی تکمیل اورتعمیل کے طورپربطورخوشی عطافرمایاہے، چنانچہ عیدالفطر رمضان المبارک کی تکمیل کے موقع پر عطاکی گئی تو عیدالاضحی حج بیت اللہ کی تکمیل کے موقع پر عنایت کی گئی، اگرغور کیاجائے تواہل دل اوراہل باطن پرعیدکے دن سے بہت سے حقائق اوردقائق سے پردہ اٹھتاہے مثلاًعیدکے دن صبح سویرے نیندسے بیدارہوکرعیدگاہ کے لئے نکلنامردوںکے قبرسے محشرکی طرف نکلنے کی طرح ہے۔
بعض افرادکی زیب وزینت اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے تو بعض کی متوسط درجے کی اور بعض کی کمتردرجے کی جواللہ تعالیٰ کے قول یوم نحشرالمتقین الی الرحمن وفداکی بھرپورترجمانی کرتاہے۔ایسے ہی ونسوق المجرمین الٰی جہنم ورداکی طرف بھی ایک اشارہ ہے۔
عیدکے ہجوم اور مجمع کی زیادتی سے کچھ لوگوں کا گرنااورپامال ہوجانابالکل اسی طرح ہے جس طرح قیامت کے دن ظالم لوگ گریں گے اورپامال ہوں گے۔
امراء اور اغنیاء کاعیدکے دن صدقہ وخیرات کرنامشیرہے قیامت کے اس واقعہ کی طرف کہ دنیاکے اہل خیر آخرت میں بھی اہل خیرہوں گے۔
جس طرح دنیامیں کچھ لوگ عطااوربخشش کاسوال کرتے ہیں اسی طرح قیامت کے دن( جویوم جزاہے) بعض پرعطاہوگی اوربعض پر نہیں ہوگی،جن لوگوں پر عطانہیں ہوگی ایسے لوگ کہیں گے فمالنامن شافعین ولاصدیق حمیم۔
عیدگاہ سے لوٹنے اورواپس ہونے والے بھی بعض خاص قسم کے ہوتے ہیں اسی طرح وہاں بھی کچھ خاص قسم کے لوگ ہوں گے اوریہی لوگ اولٰئک ہم المقربون کا مصداق ہوں گے۔(صیدالخاطر)
عیدکے دن غسل کرنا،عمدہ لباس زیب تن کرنا،خوشبولگانا،پیادہ پاعیدگاہ جانایہ سب چیزیں صاحبان عقل ودانش کو چیخ چیخ کربتلاتی ہیں کہ بندہ جب دنیاسے آخرت کی طرف کوچ کرتاہے تویہی کیفیت ہوتی ہے۔
الغرض!عیدالفطرہویاعیدالاضحی،
بہرحال اللہ تعالیٰ نے عیدین کودوعظیم الشان ارکان کی تکمیل اورتعمیل کے طورپربطورخوشی عطافرمایاہے، چنانچہ عیدالفطر رمضان المبارک کی تکمیل کے موقع پر عطاکی گئی تو عیدالاضحی حج بیت اللہ کی تکمیل کے موقع پر عنایت کی گئی، اگرغور کیاجائے تواہل دل اوراہل باطن پرعیدکے دن سے بہت سے حقائق اوردقائق سے پردہ اٹھتاہے مثلاًعیدکے دن صبح سویرے نیندسے بیدارہوکرعیدگاہ کے لئے نکلنامردوںکے قبرسے محشرکی طرف نکلنے کی طرح ہے۔
بعض افرادکی زیب وزینت اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے تو بعض کی متوسط درجے کی اور بعض کی کمتردرجے کی جواللہ تعالیٰ کے قول یوم نحشرالمتقین الی الرحمن وفداکی بھرپورترجمانی کرتاہے۔ایسے ہی ونسوق المجرمین الٰی جہنم ورداکی طرف بھی ایک اشارہ ہے۔
عیدکے ہجوم اور مجمع کی زیادتی سے کچھ لوگوں کا گرنااورپامال ہوجانابالکل اسی طرح ہے جس طرح قیامت کے دن ظالم لوگ گریں گے اورپامال ہوں گے۔
امراء اور اغنیاء کاعیدکے دن صدقہ وخیرات کرنامشیرہے قیامت کے اس واقعہ کی طرف کہ دنیاکے اہل خیر آخرت میں بھی اہل خیرہوں گے۔
جس طرح دنیامیں کچھ لوگ عطااوربخشش کاسوال کرتے ہیں اسی طرح قیامت کے دن( جویوم جزاہے) بعض پرعطاہوگی اوربعض پر نہیں ہوگی،جن لوگوں پر عطانہیں ہوگی ایسے لوگ کہیں گے فمالنامن شافعین ولاصدیق حمیم۔
عیدگاہ سے لوٹنے اورواپس ہونے والے بھی بعض خاص قسم کے ہوتے ہیں اسی طرح وہاں بھی کچھ خاص قسم کے لوگ ہوں گے اوریہی لوگ اولٰئک ہم المقربون کا مصداق ہوں گے۔(صیدالخاطر)
عیدکے دن غسل کرنا،عمدہ لباس زیب تن کرنا،خوشبولگانا،پیادہ پاعیدگاہ جانایہ سب چیزیں صاحبان عقل ودانش کو چیخ چیخ کربتلاتی ہیں کہ بندہ جب دنیاسے آخرت کی طرف کوچ کرتاہے تویہی کیفیت ہوتی ہے۔
الغرض!عیدالفطرہویاعیدالاضحی،
ہمدردی کادن:
اس دن خاص طورپراپنے پاس پڑوس کی خبراورفکررکھنی چاہئے،جولوگ غریب ہوں،اچھے کھانے کا بندوبست کرنے پر قادرنہ ہوں،اپنے بچوں کے لئے اچھی چیزوں کا تحمل نہ رکھتے ہوں،فطرہ اداکرنے پر بھی قدرت نہ رکھتے ہوں اوردوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں عاراورحیامحسوس کرتے ہوں ایسے گھروں کی فوری طورپر امدادواعانت کریں اوراگرزکوٰۃ اورفطرہ کے مستحق ہوں توپہلی فرصت میں زکوٰۃ یافطرہ دے کران کی خوشیوں کو بحال کرنے میں پیش رفت کریں۔
یتیموں کی کفالت جواہم ترین سنت ہے اوریتیم کی کفالت کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طورپرتاکیدفرمائی ہے اس لئے تلاش اور جستجوکرکے یتیم بچہ کی پرورش اورتربیت کا نظم کریں۔
اس دن خاص طورپراپنے پاس پڑوس کی خبراورفکررکھنی چاہئے،جولوگ غریب ہوں،اچھے کھانے کا بندوبست کرنے پر قادرنہ ہوں،اپنے بچوں کے لئے اچھی چیزوں کا تحمل نہ رکھتے ہوں،فطرہ اداکرنے پر بھی قدرت نہ رکھتے ہوں اوردوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں عاراورحیامحسوس کرتے ہوں ایسے گھروں کی فوری طورپر امدادواعانت کریں اوراگرزکوٰۃ اورفطرہ کے مستحق ہوں توپہلی فرصت میں زکوٰۃ یافطرہ دے کران کی خوشیوں کو بحال کرنے میں پیش رفت کریں۔
یتیموں کی کفالت جواہم ترین سنت ہے اوریتیم کی کفالت کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طورپرتاکیدفرمائی ہے اس لئے تلاش اور جستجوکرکے یتیم بچہ کی پرورش اورتربیت کا نظم کریں۔
یتیم اوردُرِّیتیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکے دن ایک بچے کو دیکھاکہ خوشیاں اس کے چہرے سے کافورہیں، رنجیدہ اور کبیدہ بیٹھاہواہے،دریافت فرمایاکہ کیوں مغموم بیٹھے ہوئے ہو؟عرض کیامیرے باپ کا انتقال ہوگیا،میری ماں نے دوسرانکاح کرلیا،میں سرپرستی سے محروم ہوگیا،ایسی صورت میں میرے لئے کیاخوشی ہوسکتی ہے اورعیدکادن میرے لئے کیابہاریں لاسکتاہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کوحضرت عائشہ صدیقہ ؓکے پاس لائے اورفرمایاکہ اس بچے کو نہلاؤ،اچھے کپڑے پہناؤ،خوشبولگاؤ!چنانچہ وہی بچہ جوکچھ دیرپہلے مغموم ومحزون بیٹھاہواتھااب اس کی خوشیاں واپس آچکی تھیں،اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا شفیق باپ اور سرپرست مل چکاتھا،حسنؓ اورحسینؓ جیسے بھائی مل گئے تھے،فاطمہؓ اور رقیہؓ جیسی بہنیں مل گئی تھیں اورامہات المؤمنین کی شکل میں برگزیدہ اورستودہ مائیں مل گئی تھیں۔سچ ہے …ع …
یہ رتبہ بلندملاجس کومل گیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکے دن ایک بچے کو دیکھاکہ خوشیاں اس کے چہرے سے کافورہیں، رنجیدہ اور کبیدہ بیٹھاہواہے،دریافت فرمایاکہ کیوں مغموم بیٹھے ہوئے ہو؟عرض کیامیرے باپ کا انتقال ہوگیا،میری ماں نے دوسرانکاح کرلیا،میں سرپرستی سے محروم ہوگیا،ایسی صورت میں میرے لئے کیاخوشی ہوسکتی ہے اورعیدکادن میرے لئے کیابہاریں لاسکتاہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کوحضرت عائشہ صدیقہ ؓکے پاس لائے اورفرمایاکہ اس بچے کو نہلاؤ،اچھے کپڑے پہناؤ،خوشبولگاؤ!چنانچہ وہی بچہ جوکچھ دیرپہلے مغموم ومحزون بیٹھاہواتھااب اس کی خوشیاں واپس آچکی تھیں،اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا شفیق باپ اور سرپرست مل چکاتھا،حسنؓ اورحسینؓ جیسے بھائی مل گئے تھے،فاطمہؓ اور رقیہؓ جیسی بہنیں مل گئی تھیں اورامہات المؤمنین کی شکل میں برگزیدہ اورستودہ مائیں مل گئی تھیں۔سچ ہے …ع …
یہ رتبہ بلندملاجس کومل گیا
حضرت عمرؓکی عید:
امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عید کے دن اپنے بیٹے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رو پڑے بیٹے نے کہا کہ ابا جان آپ کس لئے روتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اے بیٹے! مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھیں گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا ،بیٹے نے جواب دیا ،دل اس کا ٹوٹے گا جو رضائے الٰہی کو نہ پا سکا یا اس کا جس نے ماں باپ کی نافرمانی کی اور مجھ کو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی رضامندی کے طفیل مجھ سے راضی ہے ،یہ سن کر حضرت عمر ؓرو پڑے اور بیٹے کو گلے لگا لیا اور اس کیلئے دعا کی۔
امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عید کے دن اپنے بیٹے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رو پڑے بیٹے نے کہا کہ ابا جان آپ کس لئے روتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اے بیٹے! مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھیں گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا ،بیٹے نے جواب دیا ،دل اس کا ٹوٹے گا جو رضائے الٰہی کو نہ پا سکا یا اس کا جس نے ماں باپ کی نافرمانی کی اور مجھ کو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی رضامندی کے طفیل مجھ سے راضی ہے ،یہ سن کر حضرت عمر ؓرو پڑے اور بیٹے کو گلے لگا لیا اور اس کیلئے دعا کی۔
حضرت علی ؓکی عید:
ایک شخص نے عیدکے دن امیرالمؤمنین حضرت علی ؓکوخشک روٹی کھاتے ہوئے دیکھاتو عرض کیاکہ آج تو عیدکادن ہے اورآپ خشک روٹیاں کھارہے ہیں؟فرمایاکہ عیدتو ان کے لئے ہے جن کے روزے قبول ہوچکے ہیں،عیدان کی ہے جن کی دعائیں قبول ہوگئیں ،عیدان کی ہے جن کی کوششیں بارآور ہوگئیں، مگرہماری عیدتوآج عیدوہی ہے جوکل ہوگی( یعنی جس دن آدمی گناہ نہ کرے وہ اس کی عیدہے)۔
ایک شخص نے عیدکے دن امیرالمؤمنین حضرت علی ؓکوخشک روٹی کھاتے ہوئے دیکھاتو عرض کیاکہ آج تو عیدکادن ہے اورآپ خشک روٹیاں کھارہے ہیں؟فرمایاکہ عیدتو ان کے لئے ہے جن کے روزے قبول ہوچکے ہیں،عیدان کی ہے جن کی دعائیں قبول ہوگئیں ،عیدان کی ہے جن کی کوششیں بارآور ہوگئیں، مگرہماری عیدتوآج عیدوہی ہے جوکل ہوگی( یعنی جس دن آدمی گناہ نہ کرے وہ اس کی عیدہے)۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی عید:
خلیفۃ المسلمین حضرت عمربن عبدالعزیزؒکے بچوں نے اپنی ماں سے عیدکیلئے نئے کپڑوں کی فرمائش کی، والدہ ماجدہ کا دل پسیج گیا،سفارشی بن کربچوں کے ساتھ خلیفۃ المسلمین کی خدمت میں پہنچیں، دیکھاکہ حضرت عمرؒدعااورمناجات میں مشغول ہیں اورزاروقطاررورہے ہیں،اسی حالت میں غشی طاری ہوگئی ، پنکھا جھلاگیا،پانی کے قطرے چہرہ ٔ انورپرڈالے گئے ہوش آیاتوپوچھاکہ فاطمہ کیوں آئی ہو؟حضرت فاطمہؒ نے بچوں کی فرمائش بیان کی توفرمایا:کہ تمہیں معلوم ہے کہ مجھے بیت المال سے گزربسرکے لئے صرف دودرہم ملتے ہیں ،ایسی صورت میں نئے کپڑوں کا نظم ممکن نہیں،حضرت فاطمہؒ نے عرض کیاکہ ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لے لیں؟چنانچہ آپ نے بیت المال کے خزانچی کورقعہ لکھ دیا،خزانچی بھی آپ ہی کاتربیت یافتہ اورصحبت یافتہ تھاجواباً لکھاکہ کیاآپ کوایک ماہ تک زندہ رہنے کایقین ہے ؟حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے خزانچی کاجواب پڑھا توآبدیدہ ہوکرفرمایاکہ ہاں! موت کاکوئی بھروسہ نہیں ہے کسی کونہیں معلوم کہ کون کب تک زندہ رہے گا۔
بالآخروہی خلیفۃ المسلمین جنہوں نے اپنے کرداروعمل سے ہزاروں گھروں کوخوشیاں واپس دلائی تھیں، ہزاروں یتیموں کی کفالت کا معقول نظم فرمایاتھا، بیواؤں کے پژمردہ چہروں پرشگفتگی کاسامان پیداکیاتھا،ظالموں اورجابروں سے غریبوں کی زمینیں اورجائدادیں واپس دلوائی تھیں لیکن خوداپنے بچوں کے ساتھ پرانے وبوسیدہ کپڑوں میں عیدادافرمائی۔
علامہ سیوطیؒ نے اپنی کتاب بیان الامراء میں ابن عساکرکے حوالے سے ابراہیم بن ابی عیلہؒ سے روایت نقل کی ہے کہ ہم لوگ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کوعیدکی مبارک باددینے کے لئے پہنچتے اورعرض کرتے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے اور ہم سے قبول فرمائیں،توجواباًآپ بھی انھیں الفاظ کودہرادیتے تھے۔
خلیفۃ المسلمین حضرت عمربن عبدالعزیزؒکے بچوں نے اپنی ماں سے عیدکیلئے نئے کپڑوں کی فرمائش کی، والدہ ماجدہ کا دل پسیج گیا،سفارشی بن کربچوں کے ساتھ خلیفۃ المسلمین کی خدمت میں پہنچیں، دیکھاکہ حضرت عمرؒدعااورمناجات میں مشغول ہیں اورزاروقطاررورہے ہیں،اسی حالت میں غشی طاری ہوگئی ، پنکھا جھلاگیا،پانی کے قطرے چہرہ ٔ انورپرڈالے گئے ہوش آیاتوپوچھاکہ فاطمہ کیوں آئی ہو؟حضرت فاطمہؒ نے بچوں کی فرمائش بیان کی توفرمایا:کہ تمہیں معلوم ہے کہ مجھے بیت المال سے گزربسرکے لئے صرف دودرہم ملتے ہیں ،ایسی صورت میں نئے کپڑوں کا نظم ممکن نہیں،حضرت فاطمہؒ نے عرض کیاکہ ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لے لیں؟چنانچہ آپ نے بیت المال کے خزانچی کورقعہ لکھ دیا،خزانچی بھی آپ ہی کاتربیت یافتہ اورصحبت یافتہ تھاجواباً لکھاکہ کیاآپ کوایک ماہ تک زندہ رہنے کایقین ہے ؟حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے خزانچی کاجواب پڑھا توآبدیدہ ہوکرفرمایاکہ ہاں! موت کاکوئی بھروسہ نہیں ہے کسی کونہیں معلوم کہ کون کب تک زندہ رہے گا۔
بالآخروہی خلیفۃ المسلمین جنہوں نے اپنے کرداروعمل سے ہزاروں گھروں کوخوشیاں واپس دلائی تھیں، ہزاروں یتیموں کی کفالت کا معقول نظم فرمایاتھا، بیواؤں کے پژمردہ چہروں پرشگفتگی کاسامان پیداکیاتھا،ظالموں اورجابروں سے غریبوں کی زمینیں اورجائدادیں واپس دلوائی تھیں لیکن خوداپنے بچوں کے ساتھ پرانے وبوسیدہ کپڑوں میں عیدادافرمائی۔
علامہ سیوطیؒ نے اپنی کتاب بیان الامراء میں ابن عساکرکے حوالے سے ابراہیم بن ابی عیلہؒ سے روایت نقل کی ہے کہ ہم لوگ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کوعیدکی مبارک باددینے کے لئے پہنچتے اورعرض کرتے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے اور ہم سے قبول فرمائیں،توجواباًآپ بھی انھیں الفاظ کودہرادیتے تھے۔
حضرت سری سقطیؒ کی عید:
حضرت سری سقطیؒ کی نظر عیدگاہ جاتے ہوئے ایک مسکین صورت بچے پرپڑی،ہرطرح کی خوشی سے عاری چہرہ،زیب وزینت اوراچھے کپڑوں سے سے محروم بدن،غربت وافلاس تنگی وتنگ دستی کاپیکرمجسم!حضرت سری سقطیؒ کادل پسیج گیا،بچے سے پوچھاکہ تم کیوں افسردہ وپژمردہ بیٹھے ہوئے ہو؟آج تو عیدکادن ہے،خوشی کا دن ہے،بچے نے عرض کیاکہ میرے ماں باپ کاسایہ سرسے اٹھ چکاہے،کوئی ولی اور سرپرست بھی نہیں ہے،اس لئے نہ تواچھے کپڑے ہی میسرہوسکے اور نہ ہی مجھے کوئی خوشی مل سکی۔
حضرت سری سقطیؒفوراًاس بچے کو لے کرکھجورکے ایک باغ میں پہنچے ،گٹھلیاں چننی شروع کردیں،لوگوں نے عرض کیاکہ حضرت نمازعیدکاوقت ہوچکاہے!فرمایامجھے معلوم ہے ،نمازعیدکامتبادل بھی موجودہے،لیکن جوکام میں اس وقت کررہاہوں وہ اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے،چنانچہ گٹھلیاں چن کر بازارمیں فروخت کرکے اس بچے کے لئے کپڑے مہیافرمائے ۔
آنکھ ڈبڈباتی ہے ان یتیم بچوں پر
عیدپر نئے کپڑے جن سے روٹھ جاتے ہیں
سیدالطائفہ حضرت اقدس الحاج امداداللہ مہاجرمکیؒ نے غالباًایسے ہی موقع کے لئے فرمایاتھا ؎
عیدگاہ ما غریباں کوئے تو
انبساط عید دیدن روئے تو
مرحوم امیرمینائی نے کیابات کہی ہے ؎
نصیب جن کو ترے رخ کی دید ہوتی ہے
وہ خوش نصیب ہیں خوب ان کی دیدہوتی ہے
حضرت سری سقطیؒ کی نظر عیدگاہ جاتے ہوئے ایک مسکین صورت بچے پرپڑی،ہرطرح کی خوشی سے عاری چہرہ،زیب وزینت اوراچھے کپڑوں سے سے محروم بدن،غربت وافلاس تنگی وتنگ دستی کاپیکرمجسم!حضرت سری سقطیؒ کادل پسیج گیا،بچے سے پوچھاکہ تم کیوں افسردہ وپژمردہ بیٹھے ہوئے ہو؟آج تو عیدکادن ہے،خوشی کا دن ہے،بچے نے عرض کیاکہ میرے ماں باپ کاسایہ سرسے اٹھ چکاہے،کوئی ولی اور سرپرست بھی نہیں ہے،اس لئے نہ تواچھے کپڑے ہی میسرہوسکے اور نہ ہی مجھے کوئی خوشی مل سکی۔
حضرت سری سقطیؒفوراًاس بچے کو لے کرکھجورکے ایک باغ میں پہنچے ،گٹھلیاں چننی شروع کردیں،لوگوں نے عرض کیاکہ حضرت نمازعیدکاوقت ہوچکاہے!فرمایامجھے معلوم ہے ،نمازعیدکامتبادل بھی موجودہے،لیکن جوکام میں اس وقت کررہاہوں وہ اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے،چنانچہ گٹھلیاں چن کر بازارمیں فروخت کرکے اس بچے کے لئے کپڑے مہیافرمائے ۔
آنکھ ڈبڈباتی ہے ان یتیم بچوں پر
عیدپر نئے کپڑے جن سے روٹھ جاتے ہیں
سیدالطائفہ حضرت اقدس الحاج امداداللہ مہاجرمکیؒ نے غالباًایسے ہی موقع کے لئے فرمایاتھا ؎
عیدگاہ ما غریباں کوئے تو
انبساط عید دیدن روئے تو
مرحوم امیرمینائی نے کیابات کہی ہے ؎
نصیب جن کو ترے رخ کی دید ہوتی ہے
وہ خوش نصیب ہیں خوب ان کی دیدہوتی ہے
حضرت شبلیؒ کی عید:
حضرت شبلیؒ عیدکے دن نالہ وشیون کرتے ہوئے نکلے ،لوگوں نے پوچھاکہ آج خوشی ومسرت کا دن ہے اورآپ نالہ وشیون میں مصروف ہیں؟فرمایاکہ میں ان لوگوں پرنالہ کررہاہوں جنہوں نے عیدکی خوشی میں وعید کوفراموش کردیاہے۔
حضرت عمرفاروقؓکوبعض لوگوں نے عیدکی مبارک بادپیش کی توآپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے، لوگوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا:کہ میں یہ سوچ رہاہوں کہ آج عیدکادن ہے،چاروں طرف خوشیاں ہیں،میں سوچ رہاہوں کہ آج کے دن بھی اگرکوئی شخص بھوکارہ گیا،کسی کے بچے کپڑوں سے محروم رہ گئے،کسی کے گھرمیں چولہانہیں جل سکاتوآنے والے کل اللہ تعالیٰ کے سامنے اگرمجھ سے سوال کرلیاگیاتوکیاجواب دوں گا؟
محترم انورصابری دیوبندی ؒنے اس واقعہ کو بڑے سلیقہ سے منظوم فرمادیاہے ؎
ہچکیوں کے ساتھ فرمایاکہ اے مردان حق
تم کو سوزاندروں کامیرے اندازہ نہیں
آج بھی بھوکا اگر ہوگا کوئی مومن کہیں
سوچتاہوں حشرمیں دوں گا جاکر کیا جواب
حضرت شبلیؒ عیدکے دن نالہ وشیون کرتے ہوئے نکلے ،لوگوں نے پوچھاکہ آج خوشی ومسرت کا دن ہے اورآپ نالہ وشیون میں مصروف ہیں؟فرمایاکہ میں ان لوگوں پرنالہ کررہاہوں جنہوں نے عیدکی خوشی میں وعید کوفراموش کردیاہے۔
حضرت عمرفاروقؓکوبعض لوگوں نے عیدکی مبارک بادپیش کی توآپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے، لوگوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا:کہ میں یہ سوچ رہاہوں کہ آج عیدکادن ہے،چاروں طرف خوشیاں ہیں،میں سوچ رہاہوں کہ آج کے دن بھی اگرکوئی شخص بھوکارہ گیا،کسی کے بچے کپڑوں سے محروم رہ گئے،کسی کے گھرمیں چولہانہیں جل سکاتوآنے والے کل اللہ تعالیٰ کے سامنے اگرمجھ سے سوال کرلیاگیاتوکیاجواب دوں گا؟
محترم انورصابری دیوبندی ؒنے اس واقعہ کو بڑے سلیقہ سے منظوم فرمادیاہے ؎
ہچکیوں کے ساتھ فرمایاکہ اے مردان حق
تم کو سوزاندروں کامیرے اندازہ نہیں
آج بھی بھوکا اگر ہوگا کوئی مومن کہیں
سوچتاہوں حشرمیں دوں گا جاکر کیا جواب
حضرت بایزیدبسطامیؒ کی عید
حضرت بایزیدبسطامیؒ عیدکے دن اچھے لباس میں ملبوس ہوکرباہرنکلے کسی نے بے خیالی میں راکھ کی ٹوکری اپنی چھت سے پھینکی جوحضرت بایزیدؒکے سرپرجاپڑی،کپڑے خراب ہوگئے،غصہ آناچاہئے تھا،لیکن نہیں !اللہ کے اس بندے نے ایسے وقت میں بھی خوف خدااورخشیت الٰہی کوفراموش نہیں کیااورفرمایاکہ یااللہ !تیراشکرہے کہ صرف راکھ کاڈھیرمیرے اوپرپڑاورنہ میرے اعمال تو اس لائق ہیں کہ انگارے برسیں۔
سچ ہے کسی عارف نے کہاتھا’’العیدلمن خاف الوعید‘‘عیدتو ان لوگوں کے لئے ہے جووعید(دوزخ)کوفراموش کرچکے ہیں،خوشیاں صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جن کی نظراپنے گناہوں پر نہیں ہے اورمسرتیں بھی انھیں دروازوں پر دستک دیتی ہیں جہاں آخرت کافکر،حساب کا خوف اورجہنم کاڈرنہیں ہوتا۔
حضرت بایزیدبسطامیؒ عیدکے دن اچھے لباس میں ملبوس ہوکرباہرنکلے کسی نے بے خیالی میں راکھ کی ٹوکری اپنی چھت سے پھینکی جوحضرت بایزیدؒکے سرپرجاپڑی،کپڑے خراب ہوگئے،غصہ آناچاہئے تھا،لیکن نہیں !اللہ کے اس بندے نے ایسے وقت میں بھی خوف خدااورخشیت الٰہی کوفراموش نہیں کیااورفرمایاکہ یااللہ !تیراشکرہے کہ صرف راکھ کاڈھیرمیرے اوپرپڑاورنہ میرے اعمال تو اس لائق ہیں کہ انگارے برسیں۔
سچ ہے کسی عارف نے کہاتھا’’العیدلمن خاف الوعید‘‘عیدتو ان لوگوں کے لئے ہے جووعید(دوزخ)کوفراموش کرچکے ہیں،خوشیاں صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جن کی نظراپنے گناہوں پر نہیں ہے اورمسرتیں بھی انھیں دروازوں پر دستک دیتی ہیں جہاں آخرت کافکر،حساب کا خوف اورجہنم کاڈرنہیں ہوتا۔
عیدکے اصل حق دار:
عیدکے انعام اوراللہ کے فضل واحسان کے حقیقی مستحق تووہ روزہ دارہیں جنہوں نے پورے مہینہ روزہ روزہ رکھے،جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پیروی کی،جنہوں نے اعتکاف کیا،جنہوں نے شب بیداری کی اور اللہ کو راضی وخوش کرنے کی کوشش کی۔
اسلام نے مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے اور اس نے امراء کو یہ درس دیا ہے کہ تم خوشیاں ضرور مناؤ مگر اپنے قرب و جوار کے غرباء کو دیکھو ان کا جائزہ لو ان کا مشاہدہ کرو مذہبی لحاظ سے وہ تمہارے بھائی ہیں مگر غریبی و مفلسی کی بنیاد پر اس نعمت کی خوشیاں منانے سے قاصر ہیں نئے کپڑے خود پہننے سے قبل ان کو پہناؤ ان کو اچھے اچھے کھانے کھلاؤ میرے بھائیو! تم خود تو اچھے کپڑے پہنو اچھے کھانے کھاؤ مگر تمہارا بھائی ان نعمتوں سے محروم ہو تو اس صورت میں تم ہی محفل کے روح رواں ہو گے مگر تمہارا بھائی عید کے جشن میں تمہارے ساتھ شریک نہ ہو سکے گا۔
عیدکے انعام اوراللہ کے فضل واحسان کے حقیقی مستحق تووہ روزہ دارہیں جنہوں نے پورے مہینہ روزہ روزہ رکھے،جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پیروی کی،جنہوں نے اعتکاف کیا،جنہوں نے شب بیداری کی اور اللہ کو راضی وخوش کرنے کی کوشش کی۔
اسلام نے مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے اور اس نے امراء کو یہ درس دیا ہے کہ تم خوشیاں ضرور مناؤ مگر اپنے قرب و جوار کے غرباء کو دیکھو ان کا جائزہ لو ان کا مشاہدہ کرو مذہبی لحاظ سے وہ تمہارے بھائی ہیں مگر غریبی و مفلسی کی بنیاد پر اس نعمت کی خوشیاں منانے سے قاصر ہیں نئے کپڑے خود پہننے سے قبل ان کو پہناؤ ان کو اچھے اچھے کھانے کھلاؤ میرے بھائیو! تم خود تو اچھے کپڑے پہنو اچھے کھانے کھاؤ مگر تمہارا بھائی ان نعمتوں سے محروم ہو تو اس صورت میں تم ہی محفل کے روح رواں ہو گے مگر تمہارا بھائی عید کے جشن میں تمہارے ساتھ شریک نہ ہو سکے گا۔
آئیے!عہدکریں!
٭ آنے والی عیدمیںکوئی کام خلاف شرع نہیں ہوگا۔
٭ سیرت وسنت کے مطابق عیدگزاری جائے گی۔
٭ بدعات ومنکرات سے احتیاط اور احترازکیاجائے گا۔
٭ معروفات پرعمل کرنے کی بھرپورکوشش کی جائے گی۔
٭ نمازکے بعددعااور دعاکے بعدخطبہ ہوگا۔
٭ صدقۂ فطرنمازسے پہلے اداکریں گے۔
٭ کھانے پینے میں افراط اور تفریط نہیں کی جائے گی۔
٭ عیدگاہ جانے سے پہلے طاق عددکھجوریں،یاچھوارے وغیرہ کھائے بغیرعیدگاہ کیلئے نہیں نکلیں گے۔
٭ عیدالفطر کی نمازمیں تاخیراورعیدالاضحی میں تعجیل کی جائے گی۔
٭ تکبیرات کااہتمام اوردعاؤں کا التزام ہوگا۔
٭ جس راستہ سے عیدگاہ جائیں گے اس سے واپس نہیں آئیں گے۔(ایک راستہ سے جانااوردوسرے سے آناسنت ہے )
٭ ہماراہرقول اورفعل ان شاء اللہ سنت نبوی کے مطابق گزاریںگے۔
٭ فتنوں کے سدباب کے پیش نظراپنی بہنوں اوربیٹیوں کوعیدگاہ جانے سے روکیں گے۔
٭ ناجائزلہوولعب اورشیطانی کھیل کودسے احتیاط کریں گے۔
کیونکہ اسی میں ہماری صلاح اورفلاح مضمرہے اور نھیں چیزوں سے امت محمدیہ علی صاحبہاالف الف صلوٰۃ وتحیۃ کو امتیازوتشخص حاصل ہواہے۔
٭ آنے والی عیدمیںکوئی کام خلاف شرع نہیں ہوگا۔
٭ سیرت وسنت کے مطابق عیدگزاری جائے گی۔
٭ بدعات ومنکرات سے احتیاط اور احترازکیاجائے گا۔
٭ معروفات پرعمل کرنے کی بھرپورکوشش کی جائے گی۔
٭ نمازکے بعددعااور دعاکے بعدخطبہ ہوگا۔
٭ صدقۂ فطرنمازسے پہلے اداکریں گے۔
٭ کھانے پینے میں افراط اور تفریط نہیں کی جائے گی۔
٭ عیدگاہ جانے سے پہلے طاق عددکھجوریں،یاچھوارے وغیرہ کھائے بغیرعیدگاہ کیلئے نہیں نکلیں گے۔
٭ عیدالفطر کی نمازمیں تاخیراورعیدالاضحی میں تعجیل کی جائے گی۔
٭ تکبیرات کااہتمام اوردعاؤں کا التزام ہوگا۔
٭ جس راستہ سے عیدگاہ جائیں گے اس سے واپس نہیں آئیں گے۔(ایک راستہ سے جانااوردوسرے سے آناسنت ہے )
٭ ہماراہرقول اورفعل ان شاء اللہ سنت نبوی کے مطابق گزاریںگے۔
٭ فتنوں کے سدباب کے پیش نظراپنی بہنوں اوربیٹیوں کوعیدگاہ جانے سے روکیں گے۔
٭ ناجائزلہوولعب اورشیطانی کھیل کودسے احتیاط کریں گے۔
کیونکہ اسی میں ہماری صلاح اورفلاح مضمرہے اور نھیں چیزوں سے امت محمدیہ علی صاحبہاالف الف صلوٰۃ وتحیۃ کو امتیازوتشخص حاصل ہواہے۔
نیت عید
عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوںکی نیت ایک ہی جیسی ہے صرف وضاحت ضروری ہے، امام اور مقتدی نیت کر کے تکبیر تحریمہ کہہ کر بدستور ہاتھ باندھ لیں اور ثنا (سبحانک اللّٰھم) پڑھیں پھر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہوئے اللّٰہ اکبر کہیں اور ہاتھ لٹکتے ہوئے چھوڑ دیں اسی طرح تین مرتبہ کہیں لیکن تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائیں بلکہ حسب دستور باندھ لیں، امام ان تینوں تکبیروں میں تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہنے کی مقدار یا حسب ضرورت زیادہ وقفہ کرے پھر امام اعوذ باللّٰہ و بسم اللّٰہ آہستہ پڑھ کر الحمد شریف اور کوئی سورۃ جہر سے پڑھے مستحب یہ ہے کہ سورۃ الاعلٰی پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں پھر رکوع و سجود کریں اور جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جائیں تو امام پہلے الحمد و سورۃ کی قرآت جہر سے کرے بہتر یہ ہے کہ سورۃ الغاشیۃ پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں قرآت ختم کرنے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین مرتبہ زائد تکبیریں پہلی رکعت کی طرح کہے، اب تیسری تکبیر پر بھی ہاتھ چھوڑ دیں پھر بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائیں اور دستور کے موافق نماز پوری کر لیں خلاصہ یہ ہے کہ عیدین کی نماز میں چھ تکبیریں کہنا واجب ہے تین تکبیریں پہلی رکعت میں تحریمہ و ثنا کے بعد تعوذ و بسم اللّٰہ و الحمدسے پہلے اور تین تکبیریں دوسری رکعت میں الحمد و قرآت سورۃ کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے کہے یہی افضل و اولٰٰی ہے لیکن اگر دوسری رکعت میں پہلی رکعت کی مانند تعوذ و بسم اللّٰہ و الحمد سے پہلے کہہ لے گا تب بھی جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ پوری امت محمدیہ کو عیدسعیداپنی مرضی ومنشاء اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ادائیگی کی توفیق عطافرمائے۔
عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوںکی نیت ایک ہی جیسی ہے صرف وضاحت ضروری ہے، امام اور مقتدی نیت کر کے تکبیر تحریمہ کہہ کر بدستور ہاتھ باندھ لیں اور ثنا (سبحانک اللّٰھم) پڑھیں پھر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہوئے اللّٰہ اکبر کہیں اور ہاتھ لٹکتے ہوئے چھوڑ دیں اسی طرح تین مرتبہ کہیں لیکن تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائیں بلکہ حسب دستور باندھ لیں، امام ان تینوں تکبیروں میں تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہنے کی مقدار یا حسب ضرورت زیادہ وقفہ کرے پھر امام اعوذ باللّٰہ و بسم اللّٰہ آہستہ پڑھ کر الحمد شریف اور کوئی سورۃ جہر سے پڑھے مستحب یہ ہے کہ سورۃ الاعلٰی پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں پھر رکوع و سجود کریں اور جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جائیں تو امام پہلے الحمد و سورۃ کی قرآت جہر سے کرے بہتر یہ ہے کہ سورۃ الغاشیۃ پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں قرآت ختم کرنے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین مرتبہ زائد تکبیریں پہلی رکعت کی طرح کہے، اب تیسری تکبیر پر بھی ہاتھ چھوڑ دیں پھر بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائیں اور دستور کے موافق نماز پوری کر لیں خلاصہ یہ ہے کہ عیدین کی نماز میں چھ تکبیریں کہنا واجب ہے تین تکبیریں پہلی رکعت میں تحریمہ و ثنا کے بعد تعوذ و بسم اللّٰہ و الحمدسے پہلے اور تین تکبیریں دوسری رکعت میں الحمد و قرآت سورۃ کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے کہے یہی افضل و اولٰٰی ہے لیکن اگر دوسری رکعت میں پہلی رکعت کی مانند تعوذ و بسم اللّٰہ و الحمد سے پہلے کہہ لے گا تب بھی جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ پوری امت محمدیہ کو عیدسعیداپنی مرضی ومنشاء اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ادائیگی کی توفیق عطافرمائے۔
بقلم: مفتی ناصرالدین مظاہری