مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اْردو نے سال 2019 کے لئے برِّ صغیر کے معروف شاعراورصحافی ہری چند اخترکی ادبی اور صحافتی خدمات کو عالمی مشاعرے اور تحقیق و تصنیف کے لئے مخصوص کیاتھا۔اس ضمن میں ہری چند اختر کی غزلوں کے مصرعوں پر تیسری طرحی نشست 26دسمبر 2019ء کو پاکستان سے تشریف لائے ہوئے با کمال شاعراورصحافی جناب اجمل سراج کی صدارت میں، منعقد ہوئی۔اس طرحی نشست کے مہمانِ خصوصی،بحرین میں مقیم عربی ادب کے فاضل استاد ڈاکٹر شعیب نگرامی تھے۔حسبِ سابق اس نشست کا انعقاد مجلس کے ایوانِ اْردو میں ہوا۔اس یاد گار طرحی نشست میں مقامی شعرائے کرام نے اپنی طرحی اور غیر طرحی غزلیں حاضرین کے ادبی ذوق کی نذر کیں۔مقامی شعراء کے علاوہ برِّ صغیرکے معروف شعرائے کرام نے اپنی طرحی غزلیں ارسال کرکے اس نشست میں علامتی شرکت کی۔
مجلسِ فخرِ بحرین کے بانی و سرپرست، جناب شکیل احمد صبر حدی قابلِ تعریف شعری ذوق رکھتے ہیں، شعر فہمی اور تنقید کے حوالے سے عمدہ مطالعہ اس پر مستزاد ہیں۔بایں ہمہ ایوانِ اْردو سے متصل نادر کتابوں پر مشتمل لائبرری،کتاب سے ان کی محبت اور علمی ذوق کی علامت ہے۔جناب شکیل احمد صاحب ہمیشہ فروغِ اْردو کے لئے معیاری کوششوں میں مصروف رہتے ہیں یہی وجہ ہے خطہ برِّ صغیر میں وقوع پذیر ہونے والے صدیوں پر محیط اردو کی نشوو نما کے عمل اور اس سے منسلک تاریخی معاشرتی یگانگت کے احیائے ثانی کے لئے مصروفِ کار ہیں۔ان کا مطمعِ نظر یہ ہے کہ اْردو کو ایک طبقاتی زبان کی بجائے اشتراک بین الاقوام کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے، اس لحاظ سے اس زبان کی اہمیت موجودہ حالات میں مزید دو چند ہو جاتی ہے۔اس فکری تناظر میں انہوں نے اْردو کے مسلمان ادباء اور شعراء کے ساتھ ساتھ غیر مسلم شعرائے کرام کی خدمات کو منظرِ عام پر لانے اور انکو اگلی نسلوں تک بطریقِ احسن منتقل کرنے کے لئے طرحی نشستوں، عالمی مشاعروں اور تصنیف و تالیف کا ایک مربوط نظام وضع کیا ہے۔ان کی ان کاوشوں کے عمدہ نتائج برامد ہو رہے ہیں۔جناب شکیل احمد صاحب اپنی مؤقر ادبی تنظیم کی جانب سے معروف و نامور شعراء کو نشستوں اور عالمی مشاعروں میں مدعو کر کے نہ صرف سامعین کی ادبی تسکین کا سامان مہیا کرتے ہیں بلکہ ماضی کی شعری روایات کو با وقار انداز میں فروغ بھی دے رہے ہیں۔ہری چند اختر کے سلسلسے میں اس تیسری طرحی نشست کا نمایاں وصف جناب اجمل سراج کی وہ امر شاعری ہے جو ان کودیگر شعراء سے نمایاں نہیں بلکہ ممتازو منفرد کرتی ہے۔اجمل سراج محض ایک روایتی شاعر نہیں بلکہ اپنی شعری ترکیب میں وہ ایک ترو تازہ شعری فلسفہ اور ادبی مکتبہ فکر ہیں۔ اْ ن کے ہاں شعر محض قافیہ بند گفتگو نہیں بلکہ اْن کا شعر ان کے روحانی اجالے کیساتھ طلوع ہو کر قارئین و سامعین کو ایسی لطافتِ خیال سے ہمکنار کرتا ہے کہ جس کی لذت سماعتی دائروں سے نکل کر ان کے قلب و نظر کوسر شار کر دیتی ہے۔میں نے اس نشست میں شریک ایک صاحبِ ذوق کو اجمل سراج کی شاعری پر تبصرہ کرتے یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہ محض شاعری نہیں بلکہ فن شعر گوئی کا جادو ہے جس میں اجمل کی روحانی، فنیٰ اور علمی ریاضت نے کمال کی تاثیر پیدا کر دی ہے۔اجمل سراج اپنی طرز کے اس شعری سلسلے کے میرِکارواں ہیں جن کی شاعری محض ان کی ذات کا کرب نہیں ہے بلکہ اپنے عہد اور اور اس کے جلتے بجھتے پس منظر اور پیش منظر کا احاطہ کرتی ہے،اجمل اپنے عہد کے نمائندہ ہی نہیں سرخیل شاعر ہیں، ان کا شعر ان کے ذاتی تجربے، ریاضت اور ادبی نظرئے کی سچی ترجمانی کرتا ہے اور ان کی پوری شاعری اپنے مکمل و بسیط محیط کیساتھ زندگی اورروحانی واردات کی تلخ و شیریں حقیقتوں کو ان کے طلسماتی اظہار کے بعد ان کی ذات میں میں پیوست کر دیتی ہے۔ان کی شاعری میں غالب و اقبال کے مطالعے کی گہری جھلک نظر آتی ہے،یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے شعر اور شعری وجدان کی حدیں کسی افق پر علامہ اقبال کی حکیمانہ شعری بصیرت سے جا ملتی ہیں۔اجمل سراج کی شاعری کا لطف ان کا پر تاثیر لہجہ اور بھی دوبالا کر دیتا ہے۔مجھے یہ جان کر اور بھی حیرت ہوئی کہ جناب اجمل سراج کو اپنا سارا کلام یاد ہے، ایسا تب ہی ممکن ہے جب شاعر کی فنّی تپسیا میں ریاضتِ نیم شب بھی شامل ہو۔اجمل سراج کے اشعار ایک روحانی کیفیت ہیں جو ان کے سامعین پر ان سے اگلی ملاقات تک طاری رہتی ہے۔اس یادگار نشست کی نظامت اپنی تمام تر جولانیِ طبع کے ساتھ جناب خرّم عباسی نے کی.
نشست کے آغاز میں جشن آزادی بحرین کے حوالے سے بانی و سرپرست، مجلسِ فخرِ بحرین جناب شکیل احمد صبر حدی نے مملکت کے شاہِ معظم شیخ حمد بن عیسیٰ الخلیفہ اور حکومتِ بحرین کو مملکت کی ہمہ جہت ترقی پر مبارباد پیش کی۔انہوں نے پاکستان سے تشریف لائے مہمان شاعر اور صدرِ نشست جناب اجمل سراج اور دیگر شعراء و شرکاء کا بھی شکریہ ادا کیا۔بعد ازاں گزشتہ دنوں وفات پا جانے والے بحرین کے ہر دلعزیز شاعر الطاف رانا مرحوم کو ان کی خدمات اور ادبی تقریبات کو منظم کرنے کے حوالے سے مساعی پر احمد امیر پاشا اور جناب شکیل احمد صبر حدی نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی مغفرت اور لواحقین کے لئے صبر کی دعا کی۔ہری چند اختر کی دو غزلوں میں سے یہ دومصرعے بطورطرح اس نشست کے لئے منتخب کئے گئے تھے.پہلا مصرعہ، ”کشتی ہستی نظر آتی ہے اب ساحل کے پاس“، دوسرا مصرعہ، ”کہانی ہو گئی ساری جوانی دیکھتے جاؤ“۔ اس یادگار طرحی نشست میں شریک شعرائے کرام کے طرحی اور غیر طرحی کلام سے چند منتخب اشعار قارئین کی نذر ہے:
جناب اجمل سراج
بس اس نے یاد دلائی تھی ایک شام مجھے
مرا حساب ہی اس نے تو سب چکا دیا تھا
جب اس نے مجھ کو بنایا تھا خاک سے اجمل
مرا غرور بھی سب خاک میں ملا دیا تھا
دیدنی تھا آگ برساتے ہوئے سورج کا رنگ
ایک بادل نے جب اس بستی پہ سایہ کر دیا
جناب احمد عادل
جب گزر ہوتا نہیں تھا آپ کی محفل کے ساتھ
آپ کو محسوس کر سکتا تھااپنے دل کے پاس
جناب رخسار ناظم آبادی
روایت توڑ کر برسوں پرانی دیکھتے جاؤ
دکھائے رنگ کیا یہ خوش گمانی دیکھتے جاؤ
جناب احمد امیر پاشا
وہ دریاؤں کے سر چشموں پہ قابض ہو گیا ہے اب
چْرا لے گا مرے حصے کا پانی دیکھتے جاؤ
جناب طاہرعظیم
کہیں دیکھی ہے ایسی بے زبانی دیکھتے جاؤ
کہاں تک آ گیا ہے آج پانی دیکھتے جاؤ
جناب ریاض شاہد
ہمارا ذکر آئے گا فسانوں میں ترانوں میں
ہماری زیست کی دلکش کہانی دیکھتے جاؤ
جناب انور کمال
اسے بھی پیاس ہے اپنی بجھانی دیکھتے جاؤ
وہ میرا خون پیتا ہے یا پانی دیکھتے جاؤ
جناب سعید سعدی
کتنی تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں ماہ و سال
کشتیِ ہستی نظر آتی ہے اب ساحل کے پاس
جناب اسد اقبال
محل زادوں سے کچی بستیاں یہ روز کہتی ہیں
کسی دن زندگی کے یہ معانی دیکھتے جاؤ
جناب کپیل بترا
گھر مرا مقتل میں ہے بیٹھا ہوں مَیں قاتل کے پاس
وار اَب کے تب ہوا دِل ہے کہاں بے دِل کے پاس
ان کے علاوہ کچھ دیگر ممتاز شعرائے رام نے بھی مجلس فخرِ نحرین کو اپنی طرحی غزلیں ارسال کر کے اس نشست میں علامتی شرکت کی، ان کے کلام کی جھلک کچھ یوں ہے:
جناب عباس تابش
فراتِ چشم کی نقلِ مکانی دیکھتے جاؤ
کہاں جاتا ہے ان آنکھوں کا پانی دیکھتے جاؤ
جناب ظفر علی بیگ
بہت کچھ تم نے دیکھا ہے مگر کچھ بھی نہیں دیکھا
مرے اشعار کی رنگیں بیانی دیکھتے جاؤ
جناب ابنِ عظیم فاطمی
نا امیدی کفر ہے ہمت سے لے لو کام کچھ
کچھ نہ کچھ آسانیاں ہوتی ہیں ہر مشکل کے پاس
جناب رحمان فارس
ابھی تو اور الجھے گی کہانی دیکھتے جاؤ
محبت جو دکھائے یار جانی دیکھتے جاؤ
جناب شوکت جمال
درد گھٹنے سے سرک کر آ گیا ہے دل کے پاس
کشتیِ ہستی نظر آتی ہے اب ساحل کے پاس
جناب خورشید علیگ
مرے عارض پہ اشکوں کی روانی دیکھتے جاؤ
یہ شامِ کیف اور صبح ِسہانی دیکھتے جاؤ
محترمہ علینا عترت
دھوپ اور چھاؤں میں جہاں بیٹھے تھے ہم مل کے پاس
رقص کرتے ہیں وہی لمحات اب تک دل کے پاس
جناب عامر قدوائی
دوستی غم سے بڑھا،اور صبر کر سمجھوتا کر
کچھ نہیں تیرے لئے اس دور کے عادل کے پاس
جناب عبدالحق عارف
عمل سے زندگی خالی لئے پھرتا ہے بستی میں
مگر واعظ کی تم شعلہ بیانی دیکھتے جاؤ