میں محبت ہی اوڑھتی تھی مرے
ہر دوپٹے پہ دل بنا ہوا تھا
اِس سے ٹکرا کے مر گئی تتلی
پُھول دیوار پر بنا ھوا تھا
گُل حوریہ
ہند و پاک کی نوجوان نسل کی بہت سی معروف و غیر معروف شاعرات کو پڑھنےاور سننے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے،ان میں سے کئی شاعرات نئے انداز سے بھرپور جدید شاعری کرنے، جذبات و احسات کے اظہارمیں انفرادیت، نسوانی مسائل کو سادہ و بلیغ اسلوب میں بیان کردینے کی تکنیک، اورنئی تعبیرات، استعارات، تلمیحات اور تشبیہات پر مضبوط گرفت کے سبب افق شاعری پر دن بہ دن روشن سے روشن تر ہورہی ہیں،کئی ایک تو اپنے منفرد اندازِ بیان اور سہل اسلوبِ نگارش کی وجہ سے بہت جلد قارئین و سامعین کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں ـ گُل حوریہ بھی انہی خوش نصیب شاعرات میں سے ایک ہیں ـ
گُل حوریہ جدید شاعری کا ایک ایسا پیارا نام ہے، جس کے یہاں جدت بھی ہے اور ندرت بھی، بے ساختگی بھی ہے اور اعتماد بھی ـ
پرانی اور فرسودہ روایات سے ایک حدتک ان کو بغاوت تو ہے مگر قدیم صالح سے پیار بھی ہے، اسی لیے ان کی شاعری قدیم صالح اورجدید نافع کا شہکار ہوتی ہے ـ
گُل حوریہ شعر کے معایب و محاسن پر خوب نظر رکھتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کاتخلیقی معیار روز بہ روز بلند ہوتا جارہا ہے، ان میں بڑی خوبی یہ ہےکہ وہ اپنے مخصوص لب ولہجے اور نئے رنگ و آہنگ کی وجہ سے قاری و سامع کو اپنی گرفت سے باہر نکلنے نہیں دیتیں، ان کی ایک غزل سے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں، اس سے ان کی ادبی معنویت کا اندازہ کرنا آسان ہوگا:
اس کے انکار کو اقرار تک آنا پڑے گا
خواب کو دیدۂ بیدار تک آنا پڑے گا
یہ تمازت مرا ملبوس جلا سکتی ہے
اب مجھے سایۂ دیوار تک آنا پڑے گا
کب تلک دھوپ میں تم لوگ پگھلتے رہو گے ؟
جلنے والو ! تمہیں اشجار تک آنا پڑے گا
میں تُجھےکیسےمحبت کی اجازت دے دوں ؟
تُجھ کو پہلے مرے معیار تک آنا پڑے گا
اتنی آسانی سے وہ بات نہیں مانے گا
مجھ کو لگتا ہے کہ تکرار تک آنا پڑے گا
آ گیا عشق میں رسوائی کا موسم صاحب !
یعنی اب کوچہ و بازار تک آنا پڑے گا
گُل حوریہ کی تخلیقات اور آواز سے راقم کی شناسائی اگر بہت پرانی نہیں ہے تو بہت نئی بھی نہیں ہے، کئی سال پہلے یوٹیوب کے تہہ خانے میں کسی قاری کی قرأت کی ویڈیوز ڈھونڈ رہا تھا کہ وہاں ایک نام اور اس کی قرأت سے واقف ہوا، جو گُل حوریہ کی شکل میں تھا، پھر یکے بعد دیگر ان کی تلاوت کے کئی ویڈیو کلپس ملے، پھر نعت و منقبت کے کلپس بھی سامنے آئے، یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ کسی فیس بک پیج پر ان کو تحت اللفظ میں یہ غزل:
اِس کا رشتہ ھے فقط نیند کے آثار کے ساتھ
خواب لگتا ہی نہیں دیدۂ بیدار کے ساتھ
اُس کا انداز محبت میں ڈرامائی ہے
ہو گیا عشق مجھے ایک اداکار کے ساتھ
جو بھی ملتا ہے یہی کہتا ہے آرام کرو
گفتگو کرتا نہیں کوئی بھی بیمار کے ساتھ
ٹھیک ہوتی نہیں جذبوں کی فراوانی بھی
آپ معیار بھی دیکھیں ذرا مقدار کے ساتھ
آ ہی جاتا ھے بُرا وقت ذرا دھیان رہے
لگنا پڑتا ھے ہر اِک شخص کو دیوار کے ساتھ
یاد رکھو ! یہ خوشی غم میں بدل سکتی ہے
یعنی اِنکار بھی ہو سکتا ہے اِقرار کے ساتھ
لوگ انسان کی قیمت بھی لگا سکتے ہیں
گھر بنایا نہیں کرتے کبھی بازار کے ساتھ
دن کا آغاز پرندوں میں کروں گی میں اور
شام گزرے گی مری شام کے اخبار کے ساتھ
بھرپور نسائیت اور اعتماد کے ساتھ
پڑھتے دیکھا تو حیرت و استعجاب سے ٹھٹکااوررک گیا،سوچا ہو نہ ہو وہ وہی قاریہ اور نعت خواں ہوں، ذہن نے زور لگایا تو پتا چلا ہاں یہ وہی قاریہ اور نعت خواں ہیں جنہیں تم دیکھتے سنتے رہے ہو ، اس سے خوش گوار حیرت کے ساتھ ان کو شاعرہ کی حیثیت سے مزیدجاننے کا تجسس پیدا ہوا اور پھر فرط شوق میں ان کی وال تک پہنچا تو حیرانگی بڑھتی گئی ـ بہر کیف گُل حوریہ کی شاعری سادہ اسلوب اور آسان ترکیب میں ہوتے ہوئے بھی دلچسپ ہوتی ہے، ان کے یہاں فکر و خیالات کی فراوانی، اور نئے امنگوں کی بہتات ہے، وہ خیالات و جذبات کی راست ترسیل کے ساتھ جملوں کی بناوٹ پر بھی خاص توجہ دیتی ہیں ـ
رومان انگیز و نوخیز جذبات و احساسات سے مملو شاعرہ گُل حوریہ کی غزلیں چھوٹی بحروں میں زیادہ کمال دکھاتی ہیں:
ہے محبت سے آشنائی مری
یہ کوئی کم نہیں کمائی مری
مشورہ عِشق میں لیا خود سے
کِس نے کرنی تھی رہنمائی مری؟
خود کو گھاؤ ضرور لگنے تھے
آئینے سے ہوئی لڑائی مری
کہہ دیا تھا یہ شرط ہارو گے
تم نہیں سہہ سکے جُدائی مری
دیکھ کر لوگ مسکراتے رہے
اُس نے چھوڑی نہیں کلائی مری
ہجر کا لفظ ہی ادا نہ ہوا
اِتنی آواز لڑ کھڑائی مری
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ ہنر سب کو ہی عطا ہوا تھا
ہر کوئی عشق سے بندھا ہوا تھا
خودسےمیں اِس لیےمخاطب تھی
آئینہ سامنے پڑا ہوا تھا
میں محبت ہی اوڑھتی تھی، مرے
ہر دوپٹے پہ دل بنا ہوا تھا
اس سے ٹکرا کے مر گئی تتلی
پُھول دیوار پر بنا ہوا تھا
میری آنکھوں نے کر دیا تھا حسیں
دیکھنے سے تُو دِلربا ہوا تھا
تھی شرارت فقط ہواؤں کی
پُھول خوشبو سے کب جدا ہوا تھا ؟
اس لیے نیند کو دعائیں دِیں
خواب میں کوئی آشنا ہوا تھا
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
آپ مِل نہیں رھے
پُھول کِھل نہیں رھے
اور کچھ نہیں ھے دوست !
زٙخم سِل نہیں رھے
ھم کبھی سکون میں
مستقل نہیں رھے
کر رہا ھے وہ سخن
لوگ ہِل نہیں رھے
دسترس میں چاک کی
آب و گِل نہیں رھے
عِشق ھے زٙوال میں
دِل وہ دِل نہیں رھے
ان کے یہاں کافی حدتک بے ساختگی پائی جاتی ہے، جس سے شعری تخلیق مزید نکھرتی چلی جاتی ہےـ
ان کا شعری قد ہم عصر شاعرات سے ایک حدتک اس لیے بھی بلند ہے کہ ان کا دائرۂ تخلیق سماجیات، محبت، حسن و عشق، اور نسوانی مسائل کے علاوہ اور بھی کئی جہات تک پھیلا ہوا ہے، اسی لیے وہ بہت آسانی سے ہر مزاج کے قاری کو مسحور کردیتی ہیں ـ جب کہ ان کا اپنا مزاج دنیا کی رنگینی سے زیادہ خوف خدا کی طرف مائل ہے، دل عشق رسول سےسر شار طبیعت میں محبت قرآن رچی بسی ہے اور قرآن سے جنون کی حدتک لگاؤ ہے،اسی لیے وہ یہ کہتی ہیں:
اگرچہ دنیا بھی لگتی تھی خوشنما مجھ کو
مراجھکاؤ زیادہ رہا خدا کی طرف
عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ عورت کی آئینے سے دل چسپی کم ہوتی چلی جاتی ہے، بلکہ آئینے سے رقابت ہوجاتی ہے، چونکہ وہی آئینہ جو پہلے اس کے حسن و زیبائش کی قسمیں کھا رہا تھا اب اسے ڈھلتی عمر کا طعنہ اور کشش و دل فریبی کی رخصت ہوجانے کا اشارہ دینے لگتاہے، گُل حوریہ نے ابھی اپنی عمر کی ۲۴ ویں بہار ہی دیکھی ہے ، اس کے باوجود وہ بھی کبھی کبھی آئینے کی رقابت میں سوچنے لگتی ہیں ـ
خود کو گھاؤ ضرور لگنے تھے
آئینے سے ہوئی لڑائی مری
کبھی کبھی یہ تیور اور سخت ہوجاتا ہے
آئینہ ھے مرے حصار میں، میں
آئینے کے حصار میں نئیں ھوں
مگر پھر جلد ہی ان کو ان کی جواں عمری اُس کوچے سے کھینچ کر وہاں لے آتی ہیں جہاں پہنچ کر حسن خوش فہمی کا شکار ہوکر کہنے لگتی ہیں
آج کل اِک بدن کے آئینے میں
مسکراتی ھوں اور دیکھتی ھوں
خودسے میں اِس لیئےمخاطب تھی
آئینہ سامنے پڑا ھوا تھا
گُل حوریہ ملکی سطح پر “بیسٹ قاریہ ” کاایوارڈ یافتہ اور عالمی سطح پر بطور نعت خواں گولڈ میڈلسٹ ہونےکے ساتھ سافٹ وئیر انجینئر بھی ہیں، ان کی تخلیقات جتنی اچھی ہوتی ہیں اس سے کہیں زیادہ اچھی ان کی آواز ہے اوران کی قرأت قرآن ہے ـ
کم سنی کے باوجود ان کا ذہنی و فکری کینوس بہت مضبوط ہے ،سوچنے کا زاویہ منفرد اور لہجہ اوروں سے جداگانہ ہےـ
، اللہ ان کو دارین کی سعادت و خوش بختی نصیب کرےـ
تحریر: سلیم صدیقی