
پی ایم نریندرمودی نے کہا-ایسے بھارت کی تعمیر ہوجہاں شہریوں کی زندگی میں حکومت بے وجہ دخل نہ دے،ملک خودکفیل نظام کی طرف بڑھ رہاہے،’سب کاساتھ‘کے ساتھ اب سب کا’پریاس‘ کااضافہ
نئی دہلی(آئی این ایس انڈیا)یوم آزادی کے موقعہ پروزیراعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کیا۔اس موقعہ پرانھوں نے تمام مجاہدین آزادی، ملک کے دفاع میں اپنے آپ کو دن رات کھپانے والے، قربانی دینے والے، بہادر مرد و خواتین کوخراج تحسین پیش کیا۔انھو ں نے اپنے خطاب میں کہاہے کہ آزادی کو عوامی تحریک بنانے والے، لائق صد احترام باپو ہوں،یا آزادی کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے والے نیتاجی سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، بسمل اور اشفاق اللہ خان جیسے عظیم انقلابی ہوں، جھانسی کی رانی لکشمی بائی ہوں، کتور کی رانی چینما ہوں یا رانی گائی دنلیو ہوں، یا آسام میں ماتنگینی ہاجراکا کی بہادری ہو، ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو جی ہوں، قوم کو ایک متحد ملک کی شکل دینے والے سردار ولبھ بھائی پٹیل ہوں، بھارت کے مستقبل کی سمت کا تعین کرنے والے، راستہ طے کرانے والے بابا صاحب امبیڈکر سمیت ہر شخص کو، ہر شخصیت کو آج ملک یاد کر رہا ہے۔ ملک ان سبھی عظیم شخصیات کا مقروض ہے۔
مودی نے کہاکہ ہر ملک کی ترقی کے سفر میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب ملک خود کو نئے سرے سے متعارف کرتا ہے، خود کو نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے، بھارت کی ترقی کے سفر میں بھی آج وہ وقت آگیا ہے۔ 75 سال کے موقع کو ہمیں محض ایک تقریب تک ہی محدود نہیں کرنا ہے۔ ہمیں نئے عزائم کو بنیاد بنانا ہے، نئے عزائم کو لے کر چل پڑنا ہے۔ یہاں سے شروع ہوکر آئندہ 25 سال کا سفر جب ہم آزادی کی صدی منائیں گے، نئے بھارت کی اس تخلیق کا یہ ’امرت کال‘ یعنی سنہرا دور ہے۔ اس امرت کال میں ہمارے عزائم کی تکمیل، ہمیں آزادی کے 100 سال تک لے جائے گی، باوقار طریقے سے لے جائے گی۔امرت کال کا ہدف ہے، بھارت اور بھارت کے شہریوں کے لیے لئے خوش حالی کی نئی منازل طے کرنا۔ امرت کال کا ہدف ہے، ایک ایسے بھارت کی تعمیر جہاں سہولیات کی سطح گاؤں اور شہروں کو تقسیم کرنے والی نہ ہو۔ امرت کال کا ہدف ہے، ایک ایسے بھارت کی تعمیر جہاں شہریوں کی زندگی میں حکومت بے وجہ دخل نہ دے۔وزیراعظم نے کہاہے کہ بھارت تو گونا گوں نگینوں سے مزین سرزمین ہے۔ آج بھارت کے ہر کونے میں، ہر دور میں، لاتعداد لوگوں نے، جن کے نام بھی شاید تاریخ میں نہیں ہوں گے، ایسے بے شمار لوگوں نے اس ملک کو بنایابھی ہے، آگے بڑھایا بھی ہے اور میں ایسے ہر شخص کو سلام کرتا ہوں۔
انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ بھارت نے صدیوں تک مادر وطن، ثقافت اور آزادی کے لئے جدو جہد کی ہے۔ غلامی کی کسک، آزادی کی للک، اس ملک نے صدیوں تک کبھی چھوڑی نہیں۔ جیت اور شکست ہوتی رہی لیکن من مندر میں بسی ہوئی آزادی کی خواہش کبھی ختم ہونے نہیں دی۔ آج ان تمام جدوجہد کرنے والے رہنماؤں، صدیوں کی جدوجہد میں شامل مجاہدین، ان سب کو سلام کرنے کا وقت ہے، اور وہ بھی سلام کے حقدار ہیں۔وزیراعظم نے سیلاب کے مسئلے پرخطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج ملک کے کچھ علاقوں میں سیلاب آئے ہیں، مٹی کے تودے بھی گرے ہیں۔ کچھ تکلیف دہ خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ کئی علاقوں میں لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے وقت میں، مرکزی حکومت ہو، ریاستی حکومتیں ہوں، سب ان کے ساتھ مستعدی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں۔ آج اس تقریب میں، اولمپکس میں، بھارت میں، بھارت کی نوجوان نسل، جس نے بھارت کا نام روشن کیا ہے، ایسے ہمارے ایتھلیٹ، ہمارے کھلاڑی آج ہمارے درمیان ہیں۔وزیراعظم نے کہاکہ ہم آزادی کا جشن مناتے ہیں لیکن تقسیم کا درد آج بھی ہندوستان کے سینے کو چھلنی کرتا ہے۔یہ پچھلی صدی کے سب سے بڑے المیہ میں سے ایک ہے۔ آزادی کے بعد ان لوگوں کو بہت ہی جلد بھلا دیا گیا۔ کل ہی بھارت نے ایک جذباتی فیصلہ کیا ہے۔ اب سے ہر سال 14 اگست کو وبھاجن وبھیشکا اسمرتی دیوس کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ جو لوگ تقسیم کے وقت غیرانسانی حالات سے گزرے، جنہوں نے ظلم برداشت کیے، جنہیں عزت کے ساتھ آخری رسوم تک نصیب نہیں ہوئی ان لوگوں کا ہماری یادوں میں زندہ رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ یوم آزادی کی 75 ویں سالگرہ پرتقسیم کے سانحہ کو یاد کرنے کے دن کا طے ہونا، ایسے لوگوں کو ہر بھارتی کی طرف سے بصد احترام خراج عقیدت ہے۔
وزیراعظم نے کہاہے کہ ترقی کے راستے پر بڑھ رہے ہمارے ملک کے سامنے اور دنیا میں پوری انسانیت کے سامنے کورونا کا یہ دور بہت بڑے چیلنج کی شکل میں آیا ہے۔ بھارت کے لوگوں نے بہت استقلال، بہت صبر سے اس کے ساتھ اس لڑائی کو لڑا بھی ہے۔ اس لڑائی میں ہمارے سامنے بہت سے چیلنجز تھے، لیکن ہر شعبے میں ہم، ہم وطنوں نے غیرمعمولی رفتار سے کام کیا ہے۔ ہمارے سائنس دانوں اور ہمارے صنعت کاروں کی طاقت کا ہی نیتجہ ہے کہ بھارت کو ویکسین کے لئے آج کسی اور پر یا کسی اور ملک پر انحصار نہیں کرنا پڑا۔ آپ تصور کیجئے، پل بھر سوچیے اگر بھارت کے پاس اپنی ویکسین نہیں ہوتی تو کیا ہوتا، پولیو کی ویکسین پانے میں ہمارے کتنے سال گزر گئے تھے۔اتنے بڑے بحران میں جب پوری دنیا میں وبا پھیلی ہو تب ہمیں ویکسین کیسے ملتی، لیکن بھارت کو شاید ملتی کہ نہیں ملتی اور کب ملتی، لیکن آج فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا ٹیکہ کاری پروگرام ہمارے ملک میں چل رہا ہے۔ 54 کروڑ سے زیادہ لوگ ویکسین کی خوراک لے چکے ہیں۔ کوون جیسے آن لائن نظام، ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ دینے کا نظم تھا جو آج پوری دنیا کو راغب کررہا ہے۔ وبا کے وقت بھارت نے، جس طرح سے 80 کروڑ ہم وطنوں کو، مہینوں تک مسلسل مفت اناج دے کر،غریب کے گھر کے چولھے کو جلتے رکھا ہے، وہ بھی دنیا کے لئے حیرت کا باعث بھی ہے اور موضوع گفتگو بھی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ دیگر ملکوں کے مقابلے میں بھارت میں کم لوگ متاثر ہوئے ہیں، یہ بھی صحیح ہے کہ دنیا کے ممالک کی آبادی کے مقابلے بھارت میں ہم زیادہ بڑی تعداد میں اپنے شہریوں کو بچاسکے، تاہم یہ ہمارے لئے پیٹھ تھپتھپانے کی بات نہیں ہے۔مطمئن ہو کر سو جانے کی بات نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی چیلنج نہیں تھا، یہ ہماری اپنی ترقی کے راستوں کو بند کرنے والی سوچ بن جائے گی۔ امرت کال کا ہدف ہے، ایک ایسے بھارت کی تعمیر جہاں دنیا کا ہر طرح کا جدید بنیادی ڈھانچہ موجود ہو۔ہم کسی سے بھی کم نہ ہوں، یہی ایک ایک ہم وطن کا عزم ہے، لیکن عزم تب تک ادھورا رہتا ہے جب تک عزم کے ساتھ محنت اور عمل کی انتہا نہ ہو، لہٰذا ہمیں اپنے سبھی عزائم کی محنت اور عمل کی انتہا کرکے تکمیل کرنی ہی ہوگی۔ اور یہ خواب، یہ عزائم اپنی حدوں کے پار محفوظ اور خوش حال دنیا کے لئے بھی مؤثر تعاون دینے کی خاطر ہیں۔ امرت کال 25 سال کا ہے، لیکن ہمیں اپنے اہداف کے حصول کے لئے اتنا طویل انتظار بھی نہیں کرنا ہے۔ ہمیں ابھی سے جٹ جانا ہے۔ ہمارے پاس گنوانے کے لئے ایک پل بھی نہیں ہے۔ یہی وقت ہے، صحیح وقت ہے، ہمارے ملک کو بھی بدلنا ہوگا اور ہمیں ایک شہری کے ناطے اپنے آپ کو بھی بدلنا ہی ہوگا۔ بدلتے ہوئے دور کے مطابق ہمیں بھی اپنے آپ کو ڈھالنا ہوگا۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس،اسی جذبے کے ساتھ ہم سب جٹ چکے ہیں، لیکن آج لال قلعہ کی فصیل سے اپیل کررہا ہوں کہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور اب سب کا پریاس، ہمارے اہداف کے حصول کے لیے بہت اہم ہے۔ گزشتہ 7 برسوں میں شروع کی گئی متعدد اسکیموں کا فائدہ کروڑوں غریبوں کو ان کے گھر تک پہنچا ہے۔ اْجولا سے لے کر آیوشمان بھارت کی طاقت سے آج ملک کا ہر غریب واقف ہے۔ آج سرکاری اسکیموں کی رفتار بڑھی ہے۔ وہ مقررہ اہداف کو حاصل کررہی ہے۔ پہلے کے مقابلے میں ہم بہت تیزی سے بہت آگے بڑھے ہیں، لیکن بات صرف یہیں تک مکمل نہیں ہوتی ہے، اب ہمیں سیچوریشن یعنی پختگی اور درجہ کمال تک جانا ہے۔ سو فیصد گاؤں میں سڑکیں ہوں، صد فیصد کنبوں کے بینک کھاتے ہوں، صد فیصد مستفیدین کے پاس آیوشمان بھارت کا کارڈ ہو، سو فیصد اہل اشخاص کے پاس اجولا اسکیم اور گیس کنکشن ہوں، حکومت کی بیمہ اسکیم ہو، پنشن اسکیم ہو، ہاؤسنگ اسکیم سے ہمیں ہر اس شخص کو جوڑنا ہے جو اس کے حقدار ہیں۔ سو فیصد کا موڈ بناکر چلنا ہے۔ آج تک ہمارے یہاں کبھی ان ساتھیوں کے بارے میں نہیں سوچا گیا جو ریہڑی لگاتے ہیں، پٹری پر بیٹھ کر، فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سامان فروخت کرتے ہیں، ٹھیلا چلاتے ہیں۔ ہم ان ساتھیوں کو سواندھی اسکیم کے ذریعے بینکنگ نظام سے جوڑ رہے ہیں۔جیسے ہم نے بجلی صد فیصد گھروں تک پہنچائی ہے، جیسے ہم نے صد فیصد گھروں میں بیت الخلا کی تعمیر کی مستند کوشش کی، ویسے ہی ہمیں اب اسکیموں کا سیچوریشن تک کا ہدف لے کر آگے بڑھنا ہے اور اس کے لئے ہم نے وقت کی حد بہت دور نہیں رکھنی ہے۔ ہمیں کچھ ہی سالوں میں اپنے عزم کو پورا کرنا ہے۔ملک کے ہر غریب، ہر شخص تک تغذیہ پہنچانا بھی سرکار کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ غریب خواتین، غریب بچوں میں نقص تغذیہ اور ضروری قوت بخش غذا کی کمی، ان کی نشو نما میں بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ طے کیا گیا ہے کہ سرکار اپنی الگ الگ اسکیموں کے تحت جو چاول غریبوں کو دیتی ہے، اسے فورٹیفائی کرے گی۔ غریبوں کو تغذیہ بخش چاول دے گی۔ راشن کی دکان پر ملنے والا چاول ہو، مڈ- ڈے میل میں بلاکوں کو ملنے والا چاول ہو، سال 2024 تک ہر اسکیم کے توسط سے ملنے والا چاول فورٹیفائیڈ کردیا جائے گا۔