موجودہ حالات میں نمازکی ادائیگی پر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کاتفصیلی بیان

namaz

حیدرآباد(آئی این ایس انڈیا):معروف عالم دین اورفقیہ اورآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈکے ترجمان اورسکریٹری مولاناخالدسیف اللہ رحمانی نے پریس نوٹ جاری کرکے موجودہ حالات میں مسجدمیں نمازپرتفصیلی رہنمائی کی ہے۔انھوں نے کہاہے کہ اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر واحسان ہے کہ ہماری مسجدیں جن کا دروازہ اکثر نمازیوں پر بند کر دیا گیا تھا اور چند افراد سے زیادہ کو نماز میں شرکت کی اجازت نہیں تھی، یہاں تک کہ رمضان المبارک اور عید بھی اسی حال میں گذرا، اب حکومت کی طرف سے ۸/ جون ۰۲۰۲ء سے مساجد کے بشمول مذہبی مقامات کو کھولنے کی اجازت دی گئی ہے، اللہ کرے کہ صورت حال بہتر ہو اور پھر مسجدوں کی بندش کی نوبت نہ آئے۔مولانانے کہاہے کہ ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیاں تو ختم کی گئی ہیں؛ لیکن کورونا کی وبائی بیماری ابھی بھی باقی ہے؛ بلکہ اس میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے،اوراپنی زندگی اور صحت کی حفاظت اور بیماری سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدبیر اختیار کرنا بھی شریعت کا ایک حکم ہے، اس پس منظر میں چند ضروری مشورے پیش خدمت ہیں۔اگرچہ نمازیوں کی سہولت کے لئے جائے نماز بچھانا ایک درست عمل ہے اور اگر یہ جائے نماز مخمل کی ہو تو بھی حرج نہیں؛ لیکن بحالت موجودہ طبی ماہرین کی ہدایت کے مطابق ان کو ہٹا دینا اور نمازیوں کا اپنے اپنے گھر سے مصلیٰ یا رومال لے کر آنا اور اس پر نماز پڑھنا ہی مناسب ہے اور مسلمانوں کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک سنت گھر میں پڑھنے کا تھا؛ اسی لئے فقہاء نے بھی لکھا ہے کہ فرض کا مسجد میں پڑھنا اور سنتوں کا گھر میں پڑھنا افضل ہے؛ لہٰذا تمام لوگ اہتمام کریں کہ وضوء اور دیگر ضروریات سے گھر میں فارغ ہوں، سنت پڑھ کر مسجد آئیں اور جماعت ختم ہونے بعد جلد سے جلد اپنے گھر واپس ہو جائیں، اور گھر پر ہی سنت ادا کرنے کا اہتمام کریں۔مسجد میں پہنچنے کے بعد سینی ٹائزر کا استعمال کریں، سینی ٹائزر میں اگرچہ الکوحل کا استعمال ہوتا ہے؛ مگر ہر الکوحل نشہ آور نہیں ہوتا، اور پڑوسی ملک کے بعض دارالافتاء نے تحقیق کی ہے کہ یہ سینی ٹائزر نشہ آور الکوحل سے تیار نہیں کیا جاتا ہے؛ اس لئے اس کے استعمال میں مضائقہ نہیں ہے، حرمین شریفین میں بھی اسی پر عمل ہو رہا ہے؛ اس لئے مسجد کو سینی ٹائز کرنے یا ہاتھوں کی صفائی کے لئے سینی ٹائزر لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔نماز کی حالت میں ناک اور منھ کو چھپا کر رکھنا مکروہ ہے؛ لیکن عذر کی بناء پر کراہت کا حکم ختم ہو جاتا ہے۔اس لیے بطور احتیاط نمازیوں کو ماسک کا استعمال کرنا چاہئے؛ کیوں کہ اس میں ان کی بھی حفاظت ہے اور دوسرے شرکاء نماز کی بھی۔جماعت کی نماز میں صف میں مصلیوں کے مل جل کر کھڑے ہونے کی بڑی اہمیت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی ہے اور یہ نہایت اہم سنت ہے؛ لیکن کورونا کا وائرس لوگوں کے اتصال سے ایک دوسرے کو متأثر کرتا ہے؛ اس لئے اِن خصوصی حالات میں ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق فاصلہ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اور دو صفوں کے درمیان بھی فاصلہ بڑھا دیناچاہیے۔جمعہ کے بشمول کسی بھی نماز میں ایک سے زیادہ جماعت مکروہ ہے؛ لہٰذا اس سے حتی المقدور احتیاط کرنی چاہئے؛ البتہ امام ابو یوسفؒ کے نزدیک ہیئت کی تبدیلی کے ساتھ دو جماعتیں ہو جائیں تو حرج نہیں ہے، اور ہیئت کی تبدیلی کے لئے یہ کافی ہے کہ امام نے جس جگہ سے امامت کی تھی، دوسری جماعت کا امام اس جگہ سے ہٹ کر کھڑا ہو۔لہٰذا اگر مسجد کی کئی منزلیں ہوں اور عام دنوں میں جمعہ کی نماز کے لئے وہ تمام منزلیں استعمال نہیں ہوتی ہوں تو نمازیوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنے کے لئے ان منزلوں کو بھی استعمال میں لانا چاہئے، اگر مسجد تنگ ہو اور نماز جمعہ کے لئے محلہ کا کوئی فنکشن ہال حاصل کیا جا سکتا ہے تو مسجد کے علاوہ فنکشن ہال میں بھی جماعت رکھنی چاہئے، اور اگر مسجد کے تنگ ہونے اور دوسری جگہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے نمازیوں کے درمیان فاصلہ رکھنے میں دشواری ہو تو امام ابو یوسفؒ کے قول پر عمل کرتے ہوئے مسجد میں جمعہ کی ایک سے زیادہ جماعت اس طرح رکھی جا سکتی ہے کہ پہلی جماعت کا امام جس جگہ کھڑا ہوا ہو، دوسری جماعت کا امام اس سے ایک صف پیچھے کھڑا ہو۔طبی ماہرین کی وضاحت اور حکومت کی ہدایت کے مطابق ۵۶/ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں اور ۰۱/ سال سے کم عمر کے بچوں کو یہ بیماری بہت جلد متأثر کرتی ہے؛ اس لئے اس عمر کے لوگوں کو مسجد آنے کے بجائے گھر ہی میں نماز ادا کرنی چاہیے۔

بہر حال موجودہ حالات میں ہمیں نماز سے متعلق شریعت کے احکام پر قائم بھی رہنا ہے، شریعت میں حفظان صحت کی جو اہمیت ہے، اس کو بھی ملحوظ رکھنا ہے اور یہ بھی کوشش کرنی ہے کہ ہمارا کوئی عمل ملکی قانون سے متصادم نہ ہو، اللہ تعالیٰ حالات کو بہتر فرمائے اورانسانیت کو اس وباء سے نجات عطا فرمائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.