نئی دہلی (آئی این ایس انڈیا)اس سال جنوری میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کھلے عام چین کی تعریف کی تھی کہ وہاں کورونا وائرس کے حوالے سے کئی بڑے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے بھی تعریف کی کہ چین نے نئے وائرس کے خلاف فوری کارروائی کی۔تنظیم نے یہ بھی کہا کہ چینی حکومت نے وائرس کے متعلق اطلاعات شیئر کیا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ چینی حکام متعدد ہفتوں تک جینیاتی نقوش کو خفیہ رکھے رہے، جبکہ متعدد ممالک کی سرکاری لیبوں میں اس کی تحقیق کرلی گئی۔نیوز ایجنسی اے پی نے اس سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے،جس میں بتایا گیا ہے کہ چین نے کورونا کے ڈیزائننگ ٹیسٹ، منشیات اور ویکسین کے بارے میں معلومات چھپائے رہا۔ اس کے لئے چین کے سرکاری نظام صحت کے ناقص اور سست روی کو بھی مورد الزام قرار دیا جاسکتا ہے۔اے پی کی یہ رپورٹ کچھ داخلی دستاویزات، ای میلز اور درجنوں انٹرویوز پر مبنی ہے۔
چین کے محکمہ صحت کے عہدیداروں نے 11 جنوری کو وائرالوجی ویب سائٹ پر جینوم شائع ہونے کے بعد ہی اسے عام کیا۔ اس سے بہت کچھ ہونے کے بعد بھی چین نے عالمی ادارہ صحت کو دو ہفتوں تک تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔ جنوری میں ہونے والی متعدد داخلی ملاقاتوں کی ریکارڈنگ سے یہ انکشاف ہوا۔ اور یہ ملاقاتیں اس وقت ہو رہی تھیں، جب کرونا وائرس کے انفیکشن کو روکا جاسکتا تھا۔ چین کے ان اقدامات کے باوجود، عالمی ادارہ صحت عوامی سطح پر اس کی تعریف کر رہا تھا، جبکہ دوسری طرف اس تنظیم نے شکایت کی ہے کہ چین ضروری معلومات کو آگے نہیں بڑھا رہا ہے۔ ریکارڈنگ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تنظیم کے عہدیداروں نے بتایا تھا کہ کرونا وائرس کا خطرہ دنیا کو انتہائی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ چین اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے رویہ سے دنیا کے تمام ممالک ناراض ہیں کہ کرونا کی بروقت اطلاع کیوں نہیں دی گئی۔ اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں اس وائرس کی وبا ء میں اضافہ ہوا ہے اور لاکھوں افراد ہلاک اور لاکھوں افراد بیمار ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے اس قدر ناراض تھے کہ انہوں نے جمعہ کے روز اس تنظیم سے تمام تعلقات توڑنے کا اعلان کردیا۔