عالمی یومِ خواتین:اب زندگی بہت بدل گئی، مستقبل خود بنا سکتی ہوں

muslim-women

ا اسلام آباد(آئی این ایس انڈیا) پاکستان کی 63 فیصد آبادی آج بھی دیہادت میں بستی ہے۔ ایسے میں اس مفروضے کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ دیہات میں رہنے والی خواتین آج بھی شہر میں رہنے والی خواتین کے مقابلے میں اس رفتار سے ترقی نہیں کر رہیں جیسے اْنہیں کرنی چاہیے۔ یہ جاننے کے لیے اعدا و شمار دیکھے جاسکتے ہیں لیکن عملی طور پر حالات کیا ہیں یہ جاننا مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔اسلام آباد سے دو گھنٹے کی مسافت پر ضلع چکوال کا ایک چھوٹا سا گاؤں ’ناڑاں مغلاں‘ ہے، جہاں کی خواتین گزشتہ 10 برسوں سے بھی زیادہ عرصے سے خود انحصاری، تعلیم اور معاشی خود مختاری کے لیے محنت کر رہی ہیں۔ آج سے ایک دہائی قبل اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ثمینہ نذیر نے علاقے کی خواتین کے ساتھ مل کر عورتوں کی بہبود کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے تھے اور ایک ادارہ بنا کر اسے پوداکا نام دیا۔ثمینہ نذیر امریکہ میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔ اْن کے والدین موسم گرما کی چھٹیوں میں اکثر اْنہیں آبائی علاقے ناڑاں مغلاں لاتے جس کے بعد ان میں یہ شعور اجاگر ہوا کہ انہیں اپنے آبائی علاقے کے لوگوں خاص طور پر خواتین کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ ثمینہ نے بتایا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب میں امریکہ سے واپس اپنے آبائی گاؤں آئی تو بچیوں کا ایک اسکول بنانے کا ارادہ کیا لیکن اسکول بنانا تو ممکنہ نہ ہوسکا جس کے بعد علاقے کی خواتین کے ساتھ مل کر دیگر منصوبوں پر کام شروع کیا جو آج تک جاری ہیں۔ ثمینہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے خواتیں کے زیرِ انتظام چلنے والے کسان فارمزکی بنیاد رکھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی کے مراکز اور دست کاری کی ورکشاپس کا انعقاد کیا جس کے بعد ناڑاں مغلاں کی قسمت بدلنے لگی۔ ثمینہ کا کہنا ہے کہ وہ معاشی خود مختاری کو اہم سمجھتی ہیں۔ لیکن صرف اسے ہی یقینی بنانے سے خواتین کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اْن کے بقول خواتین کو اپنے حقوق کا پتا ہونا چاہیے۔دورانِ گفتگو ثمینہ نے اپنے دو ایکڑ رقبے پر محیط فارم کی طرف اشارہ کیا، جہاں 20 سے 25 خواتین کام کر رہی تھیں، اور کہا کہ یہ ان کے پرانے ترین منصوبوں میں سے ایک ہے۔ ثمینہ کی تیاری ایک کسان میٹنگ کے لیے مکمل تھی جہاں آس پاس گاؤں کی کسان عورتوں نے بھی جمع ہونا تھا۔ میٹنگ کا موضوع پودوں اور درختوں کے لیے کیمیائی کھاد کی جگہ گھر میں نامیاتی کھاد تیار کرنا تھا۔ کسان خواتین چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں وہاں آرہی تھیں۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ فارم کسان عورتوں کی زراعت سے متعلق تربیت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.