بے نفس انسانوں کی کہانی

mazahir-uloom

 

ملانورحسن:

                ”بیٹے میری طبیعت کچھ خراب محسوس ہورہی ہے،گلے میں بھی خراش ہورہی ہے،ایساکروآج تم اذان دیدو،کل سے ان شاء اللہ میں خوداذان دوں گا،تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ پھرکہنے لگے بیٹے جب تم نے اذان دیدی ہے توتکبیربھی کہہ دوکیونکہ میراگلابھی ساتھ نہیں دے رہاہے“۔

                بسترعلالت پرلمبے عرصے تک لیٹے حالت پیری میں عین وفات سے قریب زبان سے نکلنے والے یہ جملے مظاہرعلوم کے ایک ایسے شخص کے ہیں جس نے پوری زندگی مدرسہ میں صرف اذان،تکبیراورمسجدکی صفائی میں گزاردی،زندگی بھراذان دینے کی اُن کی عادت اورتکبیرکہنے کی اُن کی طبیعت تادم واپسیں باقی رہی تاآنکہ فرشتہئ اجل نے الرحیل الرحیل کانقارہ بجادیااورجاتے جاتے بھی اُن کی زبان اذان اورتکبیرکے پاک وپاکیزہ کلمات سے معطرومعنبرہوگئی۔

                ان کانام نورحسن تھا،ترمت کھیڑی ضلع سہارنپورکے رہنے والے تھے،مدرسہ میں اُس وقت تک پانی کی بڑی ٹنکی نہیں بنی تھی، موٹرچلاکرٹینک بھرناپڑتاتھاتاکہ فجرمیں طلبہ کودقت نہ ہو،حوض بھی بھرناپڑتاتھاکیونکہ پانی کی ٹونٹیاں کم تھیں،مسجدکی صفیں بھی درست کرنی پڑتی تھیں تاکہ نمازیوں کوپریشانی کاسامنانہ کرناپڑے۔اگردھوپ یاجمعہ ہواتوشامیانہ بھی لگاناپڑتاتھاتاکہ دھوپ سے بچاجاسکے۔ان تمام مشکل مراحل سے وہ بے نفس انسان اکیلاگزرتاتھالیکن مجال ہے کبھی حرف شکایت زبان پرآئے؟

MAZAHIR-WAQF
احاطہ دارالطلباء قدیم ،مظاہرعلوم وقف

                یوں تومدرسہ مظاہرعلوم (وقف)کی کئی مسجدیں ہیں ان ہی میں سے ایک مسجدکانام بھوپال کی والی اورعظیم خداترس نیک خاتون کلثوم کی طرف منسوب کرتے ہوئے کلثومیہ سے مشہورہے،تاریخ کے حساب سے سوسال پہلے اس مسجدکاافتتاح حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒنے نمازجمعہ پڑھاکرکیاتھا،محترمہ کلثوم کی خواہش تھی کہ چونکہ اس مسجدکامکمل صرفہ انہوں نے ہی برداشت کیاہے اس لئے اس کے افتتاحی موقع پرموجودرہیں لیکن جب حضرت تھانویؒکوپتہ چلاکہ مدرسہ کی جس مسجدکاافتتاح ان کے ذریعہ کرایاجائے گااس میں کلثوم صاحبہ بھی تشریف لائیں گی توحضرت نے شرط لگادی کہ اس موقع پرکوئی بھی خاتون نہیں ہونی چاہئے،نیک دل خاتون کوحضرت تھانوی کی اس شرط کے بارے میں پتہ چلاتواپناسفرسہارنپورہی کینسل کردیااوراس طرح اس شاندارتاریخی مسجدکاافتتاح حضرت تھانویؒ نے نمازجمعہ پڑھاکرکیا۔

masjid-e-kulsumiya
مسجد کلثومیہ کا اندرونی حصہ

                اس مسجدمیں اگراماموں کی تاریخ لکھی جائے توحضرت مولاناعبدالرحمن کامل پوری،حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ، حضرت مولانامحمداسعداللہ رام پوریؒ،استاذمحترم حضرت مولانارئیس الدین بجنوریؒ اوردرمیان میں بہت سی اہم شخصیات اورہونہارطلبہ نے بھی امامت کے فرائض انجام دیئے ہیں لیکن مجھے یہاں اماموں کی نہیں مؤذنوں اورفراشوں کی بات کرنی ہے۔

masjid-kulsum

اللہ بندہ:

                اللہ بندہ نام کے ایک صاحب ہواکرتے تھے وہ بھی اذان دیتے تھے،مسجدکی صفائی کرتے تھے،تکبیرکہتے تھے اوربس ان کاشب وروزیہی مشغلہ تھا،فرصت ملتی توحضرت مولانامحمدزکریاکی خدمت میں پہنچ جاتے اوروقتی ہدایات پرعمل پیراہوکراپنی سعادت مندیوں میں اضافہ کرتے تھے۔ اللہ بندہ اگرچہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کی للہیت کاعالم یہ تھاکہ کبھی ان کی تکبیراولی فوت نہیں ہوتی بلکہ بہت سے بوڑھے علمائے کرام اورعام لوگوں کی زبانی سناکہ تہجدکے بڑے پابندتھے،حضرت مولانامحمدزکریاؒایک دفعہ حج کے لئے جانے والے تھے، اللہ بندہ سے کہنے لگے کہ اگرتومیرے ساتھ چلے توتیرے کوحج کی سعادت بھی مل جائے گی اورمجھے خادم بھی مل جائے گا۔اندھے کوکیاچاہئے دونین،اللہ بندہ کہنے لگے کہ میری تودیرینہ تمناہے لیکن مدرسہ اتنی لمبی چھٹی فراشوں کونہیں دیتا،حضرت شیخ نے فرمایاکہ مدرسہ سے تومیں اجازت دلوادوں گاتوتیاری کرلے۔اجازت مل گئی،قافلہ روانہ ہوگیا،حضرت شیخ کافی عرصہ مدینہ منورہ میں قیام کرتے تھے، علمی،روحانی،اصلاحی مجلسیں لگتیں،لوگوں کوفائدہ ہوتا،اللہ بندہ خدمت کرتے، فرصت ملتے ہی مسجدنبوی پہنچ جاتے اورصلوۃ وسلام کی ڈالیاں،نمازودعاکی سعادتیں،ایک دن عجیب وغریب واقعہ ہواجس کی وجہ سے اللہ بندے کی قدروقیمت میں مزیداضافہ ہوگیا،ہوایہ کہ صبح صبح لوگوں نے حضرت شیخ کی مجلس میں عرض کیاکہ حضرت!آج مدینہ میں تمام کتے مرے ہوئے پائے گئے ہیں؟حضرت نے فرمایاکہ ممکن ہے کوئی وبائی بیماری ایسی پیداہوگئی ہوجس سے جانورمتأثرہوگئے ہوں،اللہ بندہ وہیں موجودتھے، روئے اورخوب روئے،ہچکیاں بندھ گئیں،حضرت شیخ نے پوچھاتجھے کیاہوا،بیٹھے بٹھائے رونے کی کیاوجہ ہے؟اللہ بندہ بولے کہ حضرت یہ کتوں والاسانحہ میری وجہ سے ہواہے،حضرت نے پوچھاکہ تیری وجہ سے کیسے ہوا؟کہنے لگے کہ آج رات خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا،مجھ سے پوچھاکہ اللہ بندہ!تم کومیرے شہرمیں کوئی پریشانی تونہیں ہورہی ہے؟میں نے بے خیالی میں عرض کردیاکہ حضرت پریشانی توکوئی نہیں البتہ جب میں تہجدکے لئے مسجدآتاہوں توکتے پیچھے پڑجاتے ہیں،اتناسنناتھاکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنادست مبارک فضامیں لہرایااورفرمایاکہ اب سے مدینہ میں تجھے کتے پریشان نہیں کریں گے۔

                یہ خواب بیان کرکے اللہ بندہ پھررونے لگے،حضرت شیخ بہت بگڑے کہ اللہ کے بندے!سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اوران سے ایسی بات کہی۔ اللہ بندہ تاحیات مدرسہ میں مؤذن رہے۔

ملاعبدللہ:

                ان کے بعدان کے بڑے بیٹے بھائی عبداللہ بھی مدرسہ میں اپنے باپ کی جگہ رکھے گئے،بڑے سادہ طبیعت،نیک،شریف،بھلے مانس لیکن مدرسہ کے کام میں جاق وچوبند،متحرک وفعال،سچ بات کہنے کے عادی، مسجداوردفترکی صفائی سے فارغ ہوکردفتروالی مسجد(جومسجداولیاکہی جاتی ہے)کے حمام میں پانی وغیرہ کاانتظام کرکے پھراذان فجردیتے تھے،اگرسردی ہوئی تولکڑیاں جلاکربھی پانی گرم اورتیارکردیتے تاکہ فجرکے وقت نمازیوں کے لئے آسانی ہوسکے۔ایک زمانہ تک ان کایہی مشغلہ تھا،مدرسہ جوکام کہتابے تکلف کردیتے،دفتری کام ہویاانتظام کی طرف سے کوئی بھی ذمہ داری،بحسن وخوبی انجام دیتے تھے،بے نفس انسان تھے،سادگی کایہ عالم تھاکہ حضرت مفتی محمودحسن گنگوہیؒجب مظاہرعلوم میں پڑھاتے تھے اس زمانہ میں خدمت بھی کی تھی، اسی وجہ سے حضرت مفتی صاحب تاحیات بھائی عبداللہ کاخیال رکھتے تھے،ایک دفعہ افریقہ سے بھائی عبداللہ کے لئے چودہ سوروپے ہدیہ بھجے،دیگردفتریوں کوپتہ چل گیا،دفتریوں نے بھائی جی کوچھیڑااورکہاکہ بتاوؒاتنے بڑے مفتی صاحب اوراتناچھوٹاہدیہ،پورے ہزارروپے بھیج دیتے توکیابگڑجاتا،بھائی عبداللہ کوبھی یہ بات محسوس ہوگئی اوربڑے تاؤکے ساتھ کہنے لگے کہ ہاں جی،عجیب بات ہے جب بھیجنے ہی تھے توچودہ سوکیوں پورے ہزاروپے ہی بھیج دیتے۔

MAZAHIR
مظاہرعلوم وقف کی خوبصورت عمارت

                دفتروالی مسجدمیں نمازجمعہ شہرمیں سب سے پہلے ہوتی ہے بھائی عبداللہ کی مصروفیات جمعہ کے دن بہت بڑھ جاتی تھیں،کیونکہ نمازیوں کی کثرت اتنی ہوجاتی ہے کہ مسجدکے علاوہ دفترکاصحن،تمام دفاتر،بالائی چھت وغیرہ جہاں بھی جگہ ہو سکتی ہے بھرجاتی ہے،ویسے بھی سہارنپوربھارت کے ان شہروں میں سے ہے جہاں الحمدللہ نمازیوں کی کثرت ہے،بتاتاچلوں کہ رمضان کے علاوہ دنوں میں بھی یہاں کاعام نوجوان نمازباجماعت کاپابندہے،ہرنوجوان بھلے ہی اوٹ پٹانگ کپڑے پہنے،کتوں جیسے بال رکھے،گالی گلوچ سے بات کرے لیکن نمازکے وقت اپنی پینٹ سے ٹوپی نکال کرنمازباجماعت میں شامل ہوتے ان آنکھوں نے ہمیشہ دیکھاہے اورامیدبھی جاگی ہے کہ اگریہ مٹی ذراسی نم ہوجائے تواس کی زخیزی وشادابی میں کیابال وپرنکلیں گے کیاگل ولالہ نظرآئیں گے کیافصل نوبہارکاسماں ہوگاسبحان اللہ!

                یہاں مشہورہے کہ سہانپورکی ہرمسجد(سوائے جامع مسجدکے)ہرنمازمیں بھرجاتی ہے،اسی طرح کوئی بھی شخص شہرمیں کہیں بھی ہواگروہ چاہتاہے کہ تکبیراولی فوت نہ ہوتوپتہ کرلے اُس کے قرب وجوارمیں مسجدضرورہوگی بلامبالغہ مساجدکی کثرت کے اعتبارسے اس کومغربی یوپی کاڈھاکہ کہاجاسکتاہے۔

                فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒسے پہلے حضرت مولانامحمداسعداللہ مدرسہ کے ناظم تھے،اُن سے پہلے حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضویؒ ناظم رہے،حضرت مولاناعبداللطیف ؒکے زمانہ میں بھائی عبداللہ کامدرسہ میں بحیثیت فراش تقررہواتھا،گویاحضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ سمیت انھوں نے مظاہرعلوم کے چاردورنظامت دیکھے تھے۔

دفترمظاہرعلوم وقف،حضرت ناظم صاحب کی بیٹھنے کی جگہ

                ایک دن مسجدسے دفتراہتمام ہوکراندرون دفتر جارہے تھے،غصہ کی وجہ سے ان کی چال بھی بدل جایاکرتی تھی،ہاتھوں کوہلاتے،گردن کوموڑتے،چہرے پرخفگی اورآنکھوں میں غیظ وغضب لئے ہوئے،اس منظرکوفقیہ الاسلام مفتی مظفرحسینؒنے بھانپ لیااورپوچھ بیٹھے کہ بھائی جی!کیابات ہے آج بہت غصہ میں لگ رہے ہو؟بھائی عبداللہ بولے بس جی مفتی صاحب (فقیہ الاسلام مفتی مظفرحسین کوزیادہ ترپرانے لوگ مفتی صاحب اورنئے لوگ ناظم صاحب کہتے تھے)کیابتاؤں،حافظ عبداللطیفؒ کازمانہ بڑاخیرکازمانہ تھا،مفتی صاحبؒبولے کہ ہاں بھائی یہ بات توصحیح ہے وہ خودبھی بزرگ ہستی تھے،میرے بھی استاذہیں،مگرہواکیا؟بھائی عبداللہ کہنے لگے کہ اجی مفتی صاحب!بات اصل یہ ہے کہ اُن کے زمانے میں مسجدمیں مشکل سے دیڑھ دوصفیں بچھانی پڑتی تھیں،نمازی اتنے نہیں تھے اوراب مسجد،دفتراوپرنیچے ہرجگہ صفیں بچھانی پڑتی ہیں کیونکہ ساراشہرہرنمازمیں یہیں آکرمرتاہے۔یہ سنناتھاکہ پوری مجلس زعفران زارہوگئی۔سناہے ان کانکاح حضرت شیخ الاسلام مدنیؒنے پڑھایاتھاجوبہرحال مظاہراوراکابرمظاہرکی نسبت کی وجہ سے ہی ممکن ہواہوگا۔

دفتروالی مسجد یعنی مسجد اولیاء

پڑھے لکھے توخیرآپ بھی نہیں تھے لیکن تجربہ کارضرورتھے،مدرسہ کے مفادپران کی نظررہتی تھی،خارج اوقات میں کڑی نگرانی رکھتے تھے،کسی کوبھی برداشت نہیں کرتے تھے،دفترکے صحن میں بڑاساشامیانہ جمعہ کے دن باندھتے تھے،بوڑھے ہوگئے لیکن ہمت نہیں ہاری،ایک دن شامیانہ باندھتے باندھتے اچانک پیرڈگمگائے اوراوپرچھجہ سے نیچے آگرے،بوڑھی ہڈیاں کہاں تک یہ غم جھیل باتیں،ٹوٹ گئیں اورکافی عرصہ صاحب ِفراش رہے۔

                بھائی عبداللہ کے پاس جومکان تھاوہ ان کے والداللہ بندہ مرحوم کومدرسہ نے کرایہ پردیاتھا،مسجدکلثومیہ سے متصل چھوٹاسا مکان بمشکل میاں بیوی کے لئے کافی ہوگالیکن اولادہوئی،جوان ہوئی اورپھرایک لڑکے کی شادی بھی کردی،مکان وہی،تنگ سا،گویاع:

پاؤں پھیلاؤ تودیوارسے سرلگتاہے

                خیرشادی توہوگئی،مفتی صاحبؒکومزاح کی سوجھی اوربھائی عبداللہ سے کہنے لگے کہ بھائی جی!تمہارامکان توبہت چھوٹاہے؟

جواب دیاجی حضرت!

فرمایاکہ تم دونوں بوڑھے ہوچکے ہو!

جواب دیاجی حضرت!

 فرمایاکہ تمہارے بیٹے کی شادی بھی ہوگئی ہے!

جواب دیاجی حضرت!

فرمایاکہ تمہاری وجہ سے ان دونوں کوپریشانی ہوتی ہوگی؟

جواب دیابالکل نہیں،میری کھاٹ اِس طرف کوہے اُس کی کھاٹ اُس طرف کوہے۔

فرمایاکہ تم سمجھے نہیں،بات اصل یہ ہے کہ وہ دونوں نوجوان ہیں،تم دونوں بوڑھے ہو،ان کاخون تازہ تمہاراٹھنڈا،تم دونوں کوجلدی نیندبھی نہیں آتی ہوگی اوراس وجہ سے اُن کوپریشانی ہوتی ہوگی؟

کہنے لگے نہیں جی بالکل نہیں ہم اُدھرنہیں جاتے وہ اِدھرنہیں آتے۔

فرمایا: لیکن تم دونوں کی موجودگی ان کے لئے پریشانی کاباعث ہوتی ہوگی؟

جواب دیااجی حضرت!بالکل نہیں،ہم دونوں اس کے ماں باپ ہیں بھلاماں باپ سے بھی کسی کوپریشانی ہووے؟

مفتی صاحب پریشان کہ کیسے سمجھاؤں،اوربھائی عبداللہ اپنی سادگی کی وجہ حیران کہ کیسے سمجھوں؟

مفتی صاحب کہنے لگے بھائی وہ دونوں میاں بیوی ہیں اُن کے اپنے جذبات ہیں۔

کہنے لگے توکیاہوا؟

                فرمایا:اصل میں میاں بیوی کے حقوق بھی ہوتے ہیں جس کی ادائیگی میں تم دونوں حارج ہوتے ہوگے؟

                غالبابھائی عبداللہ مفتی صاحب کی بات کی تہ تک پہنچ گئے کیونکہ پہلے ان کا ماتھاٹھنکاپھرکہنے لگے اوہو!حضرت!آپ کیسی بات کرتے ہیں یہ کام توہمارے گھرکیاہمارے خاندان میں کبھی نہیں ہواہے اورپھرغصہ میں بھرگئے اورکہنے لگے اگرہمارے گھرمیں کسی نے ایساکام کیاتوجان سے ماردوں گا۔

                اتناسنناتھاکہ مفتی صاحب نے رومال اپنے منہ پررکھااورخاموش آوازمیں ہنسنے لگے یہاں تک مفتی صاحب کی آنکھوں سے پانی نکلنے لگا۔کیسے کیسے سادہ لوگ تھے اورایک آج کازمانہ ہے،پیداہوتے ہی موبائل،ٹی وی اورگھریلومسموم ماحول نے بچہ بچہ کوبالغ کردیاہے،کہنے والے سے سچ ہی توکہاہے:   ؎

ٹیلی ویزن کی بدولت فصل جلدی پک گئی

شہرکاہربچہ بچہ بالغ نظرآنے لگا

ملایٰسین:

                اسی زمانہ میں اُن ہی کے رفیق کاربھائی یسین قریشی ہواکرتے تھے،وہ وقتاًفوقتاًبھائی عبداللہ سے چھیڑچھاڑبھی کرتے رہتے تھے، بھائی عبداللہ جب شفایاب ہوکرمدرسہ پہنچے تومفتی مظفرحسینؒکی خدمت میں دفتراہتمام گئے،خیریت لی اورخیریت دی،اسی دوران مفتی صاحب نے پوچھاکہ بھائی جی!سورہئ یسین والاواقعہ کیاتھا؟بولے اجی حضرت!یہ قریشی کا!ایک دن میرے گھرپہنچ گیا،میں بیماربسترپرپڑاہواتھا،اس نے اچانک میرے سرہانے سورہئ یسین شریف پڑھنی شروع کردی،حضرت!وہ تواچھاہوامیں سورہئ یسین سنتے ہی اٹھ کربیٹھ گیاورنہ ذراسی دیرہوجاتی تومیں توگیاتھا(بھائی جی سمجھتے تھے کہ سورہئ یسین موت ہی کے لئے پڑھی جاتی ہے)

                یسین قریشی جن کاابھی اوپرذکرخیرہوا،یہ بھی اچھے انسان تھے،چلتے وقت بڑھاپے کی وجہ سے اپنی کمرکوپیچھے سے پکڑلیتے تھے، آوازبہت صاف،لہجہ رسیلا،کام کے پکے اوردھن کے سچے تھے،غریب گھراورگھرانہ سے تعلق رکھتے تھے،فرصت کے اوقات میں بھائی عبداللہ سے ان کی چھڑپیں عام بات تھیں،مفتی صاحب دفتراہتمام میں ہوتے اورفرصت ہوتی تودونوں کوبلالیتے اورمجلس زعفران زاربنی رہتی۔

library
لائبریری مظاہرعلوم وقف

                یسین قریشی نے ایک دن مجھ سے بتایاکہ حضرت مفتی مظفرحسین صاحب جلدی کسی کی دعوت قبول نہیں فرماتے تھے اورمیں اس پوزیشن میں نہیں تھاکہ مفتی صاحب کی دعوت کرسکوں کیونکہ گھریلوحالات ابترتھے،ایک دفعہ میں حضرت ہی کے پاس دفتراہتمام میں بیٹھاہواتھاکہ اچانک مفتی صاحب نے فرمایاکہ بھائی یسین!آج آپ کے یہاں میری دعوت ہے!یسین قریشی کہتے ہیں یہ سنناتھاکہ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی،میں نے صاف صاف عرض کردیاکہ حضرت!میرے گھرکے چوہے بھوک کی وجہ سے عصالے کرچلتے ہیں اورآپ دعوت کی بات کررہے ہیں؟مفتی صاحب نے فرمایاکہ کوئی بات نہیں جوماحضرہوگاوہی کھالوں گا،میں نے کہاکہ حضرت!صاف بات یہ ہے کہ ماحضرہی نہیں ہے،فرمایاپھربھی تمہارے گھرچلیں گے اوراگرکچھ مل گیاتوٹھیک ورنہ واپس چلے آئیں گے،تم پہلے اپنے گھرپہنچ جاؤ،ہم پیچھے سے آتے ہیں،حضرت مولانااطہرحسینؒجواپنی مخصوص زاہدانہ شان اورقناعت پسندانہ آن کی وجہ سے مشہورتھے اوروہ توکہیں بھی کسی کے یہاں بھی دعوت میں نہیں جاتے تھے،دعوت کی اِس گفتگومیں شریک ہوگئے اورکہنے لگے کہ بھائی یسین!بھائی جی (حضرت مولانااطہرحسینؒحضرت مفتی مظفرحسینؒکوبھائی جی کہتے تھے)کے ساتھ میں بھی آؤں گا۔

manager-library
ناظم لائبریری مولانا سلیم اللہ صاحب

                یسین صاحب کہتے ہیں کہ میری حالت توایسی ہوگئی کہ کاٹوتوخون نہیں،میں جلدی جلدی گھرپہنچا،ڈرتے ڈرتے اپنی اہلیہ کویہ واقعہ بتایااورصاف صاف کہہ دیاکہ میں نے دعوت کی پیش کش بالکل نہیں کی تھی، مفتی صاحب نے خودہی پیش کش فرمائی ہے اب کیاہوگا؟

                یسین صاحب کی اہلیہ نے کہاکہ کوئی بات نہیں ہے آنے دو،میں نے کہااللہ کی بندی وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں مظاہرعلوم کے ناظم صاحب ہیں ساتھ ہی ان کے بھائی بھی،اہلیہ نے کہاکہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ابھی تھوڑی دیرپہلے میرے مائکے سے عقیقے کاکھاناآیاہے وہی ان کے سامنے رکھ دیں گے۔یسین صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے گھرمیں مفتی صاحب کے لئے بیٹھنے کاانتظام کیا،اتنے میں مفتی صاحب اورمولانااطہرحسین صاحب رکشہ میں بیٹھ کرمیرے گھرپہنچ گئے،جوکچھ تھاسامنے رکھ دیا،دونوں بھائیوں نے بڑی محبت اوراوراپنائیت سے تھوڑاساکھاناکھایا،چلتے وقت مفتی صاحب نے دوسورپے اورمولانااطہرحسین صاحب نے سوروپے بھی عنایت فرمائے، اس زمانہ میں یہ رقم میری دوماہ کی تنخواہ کے برابرتھی۔

ملازاہد:

                ایک اورفراش تھے زاہدنام تھا،بڑے اللہ والے تھے،گیٹ بندکرنے اورکھولنے کے علاوہ گھنٹہ بجانے کی ذمہ داری بھی ان ہی کی تھی،ان کی خداترسی اورللہیت سن کررشک آتاہے،فالتوباتیں نہیں کرتے تھے،کم پڑھے لکھے تھے لیکن بزرگوں کے صحبت یافتہ تھے اس لئے کم ازکم اسم پاک اللہ اللہ سے ان کی زبان تروتازہ رہتی تھی،ہرکام کی شروعات بسم اللہ سے کرتے تھے،حتی کہ گھنٹہ بجانے کاان کامنفرداندازتھاجواِس زمانہ میں عنقاہوچکاہے،ہوتایہ تھاکہ زاہدصاحب گھنٹہ بجانے کے لئے جب ہتھوڑے کواوپرکرتے توکہتے کہ”بول رے گھنٹہ اللہ ھُو“اورزورسے ہتھوڑے کوگھنٹہ پرمارتے تھے۔

                غالباحضرت ابومسلم خولانی ؒکاواقعہ کسی کتاب میں پڑھاتھاکہ ان کے پاس جوتسبیح تھی اس کوجب فرصت کے اوقات میں کھونٹی پرلٹکادیتے تواس کاایک ایک دانہ گرتارہتااوراللہ اللہ کی آوازبلندہوتی رہتی تھی۔کیابعیدہے اللہ اپنے اس بندے کے گھنٹہ بجانے کی اس اداپرخوش ہوجائے اوربیڑہ پارہوجائے۔

مولانااکرام الحسن:

                حضرت مولاناانعام الحسن کاندھلوی سے توسبھی واقف ہیں لیکن ان کے والدماجدحضرت مولانااکرام الحسن کاندھلوی سے زیادہ ترلوگ ناواقف ہیں،وہ بھی یہیں مظاہرعلوم دفترمالیات میں تھے،بڑے خاشع،قانع،بسطۃ فی العلم والجسم کامصداق،عابدوزاہد،ان کایہاں گھرنہیں تھا،دفتروالی مسجدکے متصل سہ دری والے کمرے میں رہن سہن تھا،سنن اورنوافل سہ دری میں پڑھنے کامعمول تھا،فرائض توعام مسلمان اداہی کرلیتاہے لیکن نوافل میں عام طورپرغفلت مشاہدہوتی ہے،حضرت مولانااکرام الحسن کاندھلویؒایک دن غالباًنمازظہرکی سنتیں اسی سہ دری میں اداکررہے تھے،سجدہ میں ایساگئے کہ چلے ہی گئے اوراللہ کی پاک ذات سے امیدہے کہ اب روزمحشرہی سجدہ سے سراٹھے گا۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔

ملامنظور:

                زیادہ دن نہیں ہوئے ایک صاحب مدرسہ میں ملازم ہوئے نام تھا”ملامنظور“پہلے گھوڑاتانگہ چلاتے تھے اوریہی ان کاکاروبارتھاپھرمدرسہ میں ملازم ہوگئے،اصحاب علم وفضل کی صحبت نے ان پراثرکیا،داڑھی رکھ لی،گفتگومیں کچھ تہذیب پیداہوگئی، نماز وروزہ کی پابندی کرنے لگے اورالحمدللہ حدودمدرسہ میں ”ملاجی“سے مشہورہوگئے۔

                عجب انسان تھے،بات بات میں تاؤآجاتاتھا،ان کوکن باتوں سے غصہ آتاہے دفتریوں کوپتہ چل گیااوریہ بھی معلوم ہوگیاکہ ملاجی کولفظ ”ماموں“ سے بہت چڑہے بس پھرکیاتھا،یہ بات کشاں کشاں عملہ سے طلبہ میں پہنچ گئی اوریہی گڑبڑہوا۔ طلبہ بھلے ہی وضومیں اتنے اہتمام سے ہاتھ نہ دھوتے ہوں جتنے اہتمام سے کسی کے پیچھے ہاتھ دھوکرپڑتے ہیں۔ملاجی مسجدکلثومیہ میں عام طورپرنمازپڑھتے تھے، مسجدکی بھی دیکھ ریکھ کرلیتے تھے، نمازسے پہلے اوربعدکی سنتیں پابندی سے اداکرتے تھے،وہ نمازظہرمیں طلبہ کوخاص طورپربیدارکرتے تھے کبھی کبھی فجرسے قبل بھی بیدارکرنے کے لئے اوپرنیچے تمام منزلوں اورعمارتوں میں جاجاکرجگاتے اوربڑے پیارسے پکارتے”اللہ کے شیرو!نمازکے لئے اٹھ جاؤ!بعض طلبہ سستی اورکاہلی کی وجہ سے اگرنہیں اٹھتے اورملاجی نمازکے بعدانھیں سوتاہواپاتے توتانگے والے زمانے میں پہنچ کرطلبہ کووہ وہ باتیں سناتے جن کانہ تویہاں ذکرکرسکتاہوں اورنہ ہی اعادہ ممکن ہے۔

                ”ماموں“والی چڑ کاطلبہ کوپتہ چل چکاتھااورملاجی نمازکے اوقات میں جگانے کے باعث طلبہ کے ”محسن“ہوچکے تھے، اب طلبہ موقع کی تاک میں رہتے،ملاجی جب سنن اورنوافل اداکررہے ہوتے توادھرادھرنظردوڑاکردیکھ لیتے کہ کوئی استاذتونہیں ہیں اورپھرملاجی کے بالکل قریب سے گزرتے اورکہتے ”ماموں“۔بس پھرکیاتھاملاجی اپنی رکعات کووہیں چھوڑ،پرانے زمانے میں پہنچ جاتے اورغیظ وغصب میں مسجدکے تقدس کابھی خیال نہ رہتا۔

                خیریہی ملاجی بعدمیں مدرسہ کے سفیربنادئیے گئے،گھاڑکے علاقہ میں زیادہ ترچندہ کرتے تھے، فصل وغیرہ کے موقع پربالخصوص علاقہ کادورہ کرتے،لوگ ان سے بہت محبت کرتے تھے،مظاہرعلوم کی نسبت کے باعث چندہ بھی خوب دیتے تھے،غلہ اسکیم کے لئے مرزاپورپول گئے،نمازکے لئے مدرسہ مصباح العلوم کی مسجدمیں پہنچے،نمازپڑھی اورسجدہ میں گئے تواٹھناہی بھول گئے۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔

مفتی ناصرالدین مظاہری

استاذمظاہرعلوم وقف سہارنپور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *