تبلیغی جماعت اور پولیس

tableeghi-jamaat

اعظم گڑھ کے پولیس سپریڈنٹٹ تروینی سنگھ نے تبلیغی جماعت کے لوگوں کا پتہ بتانے پر پانچ ہزار روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ دہلی کے نظام الدین مرکز سے بہت سے لوگ اعظم گڑھ آئے ہیں لیکن وہ ابھی تک گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ پولیس یہاں اب تک جماعت سے وابستہ 35 افراد کو حراست میں لے کر قرنطینہ میں بھیج چکی ہے۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ دہلی میں تبلیغی مرکز سے سینکڑوں کورونا مریضوں کی بر آ مدگی کے بعد ہندوستان بھر میں کورونا کو مٹانے کی تدبیریں تبلیغی جماعت کے لوگوں تک محدود ہوگئی ہیں اور میڈیا نے اس پر جو واویلا مچایا ہے اس کے نتیجے میں اب ملک کا ہر مسلمان کورونا کا مشتبہ مجرم ہے۔

دارالعلوم دیوبند سمیت کئی مسلم اداروں نے تبلیغی مرکز سے واپس آ نے والوں کو طبی جانچ کرانے کے لئے کہا ہے لیکن ایسے بہت سے لوگ پولیس کے خوف سے سامنے نہیں آ رہے ہیں کیونکہ کورونا کی جانچ پڑتال اور علاج پولیس کی نگرانی میں ہی کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے پولیس کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور لوگ اس سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ پولیس اس معاملے میں کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی سے پیش نہ آ نے کی یقین دھانی بھی کرارہی ہے اور اس معاملے میں اس کا کردار بڑی حد تک مثبت بھی نظر آ تا ہے لیکن ماضی میں پولیس مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کرتی رہی ہے وہی اس کی اصل شناخت ہے۔

آ پ کو یاد ہوگا کہ فروری کے آواخر میں شمال مشرقی دہلی کے مسلم کش فساد کے بعد پولیس نے فساد زدگان کے نقصان کی بھرپائی کے لئے انھیں اپنی اپنی ایف آئی آر درج کرانے کیلئے کہا کیونکہ اس کے بغیر معاوضہ نہیں مل سکتا تھا۔ لیکن دیکھنے میں یہ آ یا کہ جولوگ اپنی ایف آئی آر درج کرانے پولیس اسٹیشن گئے انھیں پولیس نے فسادی قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا۔ آ ج بھی سینکڑوں بے گناہ جیلوں میں ہیں۔ تبلیغی جماعت کے لوگوں پر کورونا وائرس پھیلانے کا پروپیگنڈہ اتنا تیز ہے کہ انھیں یہ خوف ستارہا ہے کہ کہیں پولیس انھیں قرنطینہ میں بھیجنے کی بجائے جیل میں نہ ڈال دے۔ ہمارے ملک کی پولیس درحقیقت اعتماد کے شدید بحران کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے کورونا وائرس کی انسدادی کارروائیوں میں دشواری پیش آ رہی ہے۔

مضمون نگار:معصوم مرادآبادی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *