رمضان المبارک جس طرح نہایت ہی خیروبرکت کا مہینہ ہے اسی طرح نہایت ہی نازک اورگل ترسے زیادہ حساس بھی ہے، اس ماہ مبارک میں ہرنیک کام کا ثواب اللہ تعالیٰ بڑھاکرعطافرماتے ہیں۔
عام طورپردیکھایہ جاتاہے کہ رمضان المبارک میں آدمی چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتاہے،لوگ گفتگومیں بھی اخلاق ومروت،خوش اخلاقی،وخوش مزاجی اورلطف گوئی کے بجائے رعونت،بدخلقی اوربات بات میں لڑنے بھڑنے والی باتیں کرنے لگتے ہیں،حالانکہ شریعت میں اس کامستقل حکم ہے کہ انسان کو اپنے اخلاق بہترسے بہتر اور خوب سے خوب تربنانے چاہئیں،حدیث نبوی مامن شئی اثقل فی المیزان من حسن الخلق معلوم ہونے کے باوجوداورالمومن لیدرک بحسن خلقہ درجۃ الصائم القائم پرہماری نظرہونے کے باوجودہمارے اخلاق کا کیاحال ہوتاہے؟ اس پرغورکی ضرورت ہے،اخلا ق حسنہ سے انسان کے مراتب اورعزت میں اضافہ ہوتاہے،اسی اخلاق سے کاروبارزندگی کوعروج نصیب ہوتاہے،اسی اخلاق سے اللہ تعالیٰ کی رضا نصیب ہوتی ہے اور حدیث نبوی تخلقوا باخلاق اللّٰہ میں اسی پہلو پرتوجہ مبذول کرائی گئی ہے۔
اسی طرح رمضان المبارک میں عام طورپر صبح ہی سے کھانے پینے کا تذکرہ،افطاروسحرکے لئے فکرمندی، رنگارنگ اور مرغن اشیاء کے تذکرے اوران چیزوں کی تیاریوں کے لئے اپنے اوقات کو فارغ رکھنے کی پیش قدمی وپیش بندی وغیرہ کاایک مزاج بن گیاہے،مجلسیں،محفلیں،مسجدیں،خانقاہیں کوئی جگہ شایدوبایدایسی واہیات گفتگوسے خالی ہو،حالانکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء ومراد اورمقصودروزہ سے اپنے بندے کے نفس کا امتحان لیناہے، جس طرح چٹخارے لے لے کرروزہ دارحضرات روزہ کی حالت میں کھانے پینے کا ذکرکرتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء اورمرادکے خلاف ہے،رزق تو بہرحال اللہ تعالیٰ دیتاہے اور رمضان المبارک کو رزق کا مہینہ بھی قراردیاگیاہے جس کاواضح مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی روزہ داروں کے افطارکا بہترنظم فرمائیں گے،پھرکوئی وجہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے رزق کی فکرمندی میں خودکوگھلائے اورروزہ کی افادیت اوراس کی روح کوفوت کرے۔
معاشرہ میں اس پہلوپر بھی کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے کہ رمضا ن المبارک میں کسی کو کوئی تکلیف نہ دی جائے،اپنی زبان،اپنے ہاتھ اور اپنے کرداروعمل سے کسی کو نہ ستایاجائے،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی روشنی میں ہرشخص خودکو سیرت وسنت کے سانچہ میں ڈھالنے کی حتی المقدورکوشش کرے اور انسان اپنے آپ کو پورے طورپر انسانی قالب میں ڈھال لے،لیکن ایساکچھ نہیں ہوتا،پڑوسییوں کو بھی شکوہ ہے، ملازمین اور ماتحتوں کو بھی شکوہ ہے،رعیت اور رعایاکو بھی شکوہ ہے،بیوی اوربچوں کو بھی شکوہ ہے،غلام اور مولیٰ کو بھی شکوہ ہے ہرشخص ایک دوسرے کا شاکی ہے،غلام اور ماتحتوں کو شکوہ ہے کہ میرے مالک نے میرے کام میں رمضان کی مناسبت سے تخفیف اور رعایت کے بجائے کام میں مزیداصافہ کردیاہے،مالک کو شکایت ہے کہ میرانوکرکام چورہوگیاہے،ملازمین نالاں ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو پوراکرنے کی وجہ سے کھانے پینے اورسحری کے نظم میں درکاروقت نہیں ملتا،بیوی پریشان ہے کہ رمضان کے آتے ہی شوہرمیاں بداخلاق ہوگئے ہیں، حالانکہ شریعت میں ان چیزوں کی بھی رعایت رکھی گئی ہے اور مالک کو حکم دیاگیاہے کہ رمضان المبارک میں کام اور ذمہ داریوں میں تخفیف کی جائے،رعایت کا معاملہ برقراررکھاجائے اورللعادۃ سلطان قوی علی النفس البشریۃ لایغلب ولایقہرپرعمل کرنے کواپنی عادت بنالے،اسی طرح ماتحتوں کو حکم دیاگیاکہ مقررہ کام کوپوراپوراانجام دیاجائے۔
رمضان المبارک میں فضول خرچی بھی اپنی انتہاکوپہنچ جاتی ہے،کھانے پینے اورافطاروسحرکے نظم میں اس قدر فراوانی کا مظاہرہ کیاجاتا ہے اورفراغت کے بعدکھانے کی اتنی مقداربچ جاتی ہے کہ اس سے ایک غریب گھرانہ پورے طورپر آسودہ ہوسکتاہے لیکن غرباء کے گھروں میں چاہے چولہے بھی نہ جلیں،چاہے افطارکے لئے غریبوں کے پاس کو ئی انتظام بھی نہ ہو،چاہے غریبوں کے بچے اچھی چیزکھانے کے لئے مدت سے ترس رہے ہوں لیکن ان کی طرف کسی کادھیان نہیں جاتا،کسی کو فکرنہیں ہوتی،کسی کو اس کی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے پڑوس کافکرکرلیں اور وہ کھاناجوبچنے کے بعدضائع ہوکرکوڑے دان میں جانے والا ہے وہی کھاناپیشگی غریب گھرانوں میں پہنچاکران کے چہروں پر بھی مسرتوں کے گلاب کھلاسکیں،کاش ایساہوجائے!
مساجدکے مائک اوربجلی کے استعمال میں بھی احتیاط نہیں کی جاتی،کہیں جنازہ کی نمازکا اعلان ہورہاہے، کہیں کسی جانورکے چوری ہوجانے کی اطلاع دی جارہی ہے،کہیں برسرعام مسجدکے مائک ہی سے چندہ ہورہا ہے،نعتیں، حمدومناجاتیں اورطرح طرح کے اشعارپڑھے جارہے ہیں،اگرزیادہ”باذوق“ہوئے توکسی مقرر یاقاری کی کیسیٹ اورٹیپ رکارڈکوکھول کرمائک کے پاس رکھ دیاگیااورپورے محلے میں گھرگھر آواز پہنچاکریہ سوچ لیاگیاکہ جہاں تک آوازپہنچے گی شیطان نہیں آئے گالیکن اس پہلو پر نہیں سوچاگیاکہ اس طرح قرآن کریم،وعظ وتقریر،حمداورنعت وغیرہ کی کس قدرتوہین ہورہی ہے،لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں اور مائک پرپوری آوازسے قراء ت نشرہورہی ہے،عورتیں گھریلوکاموں میں لگی ہوئی ہیں اور مائک پرمقرر گلاپھاڑ پھاڑکر چیخ رہاہے،کوئی کسی کی نہیں سنتا،البتہ اس سے برادارن وطن کوشکایت کا ایک اچھاموقع ہاتھ لگ جاتاہے،سنجیدہ طبقہ کبیدگی محسوس کرتاہے اورمسجدکی بجلی اورمائک کا بے جااستعمال الگ رہااس سے پڑوسیوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔
سحرکے وقت عام مسلمانوں کو بیدارکرنے کیلئے گلی گلی باجے بجائے جاتے ہیں،ڈھول بجائی جاتی ہے،حتیٰ کہ باقاعدہ قوالیاں اور گانوں کے سازپرنظمیں پڑھی جاتی ہیں حالانکہ شریعت میں ڈھول کا بجانا،سازومزامیر، قوالیاں اورگانوں کے طرزپرنظمیں پڑھنے کوگناہ قراردیاگیاہے،اس لئے ایسی چیزوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ شیطان ہمارے جسم میں خون کے ماننددوڑتاہے اور ہرقسم کے حیلے بہانے سے مومنین کو بہکانے کی کوشش کرتاہے۔ان الشیطان یجری من ابن آدم مجری الدم(بخاری)
عام طورپر جمعہ کے دن منبرومحراب سے رمضان المبارک کے فضائل بیان کرنے ہی کو مقصوداصلی سمجھ لیا جاتا ہے،مسئلہ مسائل کی طرف عموماً توجہ نہیں دی جاتی،رمضان کے تقاضوں اور مقاصدپر روشنی نہیں ڈالی جاتی،رمضان کو ایمان واحتساب کا مہینہ کیوں قراردیاگیا؟اس پرتوجہات مبذول نہیں کرائی جاتیں، سارازوراس کے فضائل اور مناقب میں صرف کردیاجاتاہے، حالانکہ اگررمضان کے روزے اس کے مکمل مقاصداورمنشاء کو سامنے رکھ کرنہیں رکھے گئے تو اللہ تعائیٰ کو ایسے روزہ داروں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتاان کا روزہ محض بھوکارہناہے،ان کی رات کی عبادتیں محض جاگنااور بیدارارہناہے اور ایسے روزہ داروں کوان کے روزے کاکوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
افطارجوسنت ہے اور افطارکے وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جوخوشی عطافرماتے ہیں اورحدیث نبوی”للصائم فرحتان یفرحہما،اذاافطرفرح بفطرہ واذالقی ربہ فرح بصومہ“پر تو کسی کی توجہ نہیں ہوتی، البتہ انواع واقسام کی اشیاء،مرغن ومسلم چیزیں اورپرتکلف کھانوں کی اتنی اقسام ہوتی ہیں کہ آدمی شش وپنج میں مبتلاہوجائے کہ کیاکھاناہے اور کیا نہیں،اسی طرح ایک نئی بدعت”افطارپارٹی“کے نام سے چل پڑی ہے اور کمال تو یہ ہے کہ یہ پارٹیاں عموماً غیرمسلم، سیاسی لیڈران،یاماڈرن اورزردار افراد منعقدکرتے ہیں،ان پارٹیوں میں کیاہوتاہے؟ایک طوفان بدتمیزی ہوتاہے،بے روزہ داروں کی ایک ٹیم ہوتی ہے،بڑے اور امیرلوگوں کے لالچی افراداور خوشامدیوں،جی حضوری کرنے والوں اور”چمچوں“کی بھیڑہوتی ہے جو دسترخوان اور اس کے آداب ہی سے بے بہرہ ہوتے ہیں،انھیں جانوروں کی طرح کھانے کی عادت ہوتی ہے، اس لئے یہاں دسترخوان اور کھانے کا جوتقدس پامال ہوتاہے،جس مقدار میں کھاناضائع کیاجاتاہے،جس اندازاور اطوارسے یہ افطارپارٹیاں (بالفاظ دیگرسیاسی پارٹیاں) منعقدہوتی ہیں اور سیاسی موضوعات پرٹھیک افطار سے پہلے اور دورانِ افطاربحث چھڑجاتی ہے الامان والحفیظ۔
کیاکبھی غورکیاگیاکہ ہمارا وہ روزہ جس کو رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک امیددلائی کہ ہوسکتاہے کہ اس روزہ کی برکت سے تم متقی اور پرہیزگاربن جاؤ!(لعلکم تتقون)سوچئے کیاایسی افطارپارٹیاں ایک صالح اورصحت مند معاشرہ کے لئے ناسورنہیں ہیں؟اورکیامسلمانوں کے سنجیدہ طبقہ کوان برائیوں سے بچنے کی ترغیب نہیں دینی چاہئے، اغیارجوافطارکے نام پرمسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں اور ہم بے تکلف ان پارٹیوں میں اپنی عزت اوربڑے لوگوں سے قربت کے لالچ میں پہنچ کران کے دسترخوان پرجم جاتے ہیں کبھی سوچا!کہ اس کی آمدنی کیسی ہوگی،اس کا ذریعہ آمدنی کیاہوگا،ایک سیاسی آدمی جوآئے دن جھوٹ،رشوت،مکاری،فریب کاری،غداری اورملک ووطن کی حق تلفی کا بھاری جرم کررہاہے اس کا کھانا،اس کا پانی اور اس کا دسترخوان پورے طورپر جائزہوگا؟اور کیاحلال روزی سے روزہ رکھنے والاشخص حرام رزق پر روزہ کھول کراللہ کا تقرب حاصل کرسکے گا؟
آج کل یہ چلن بھی عام ہوگیاہے کہ افطارہی کو کھاناسمجھ لیاگیاہے اوراس ”کھانے“میں اتناوقت صرف کردیاجاتاہے کہ مغرب کی نمازبھی ہوچکی ہوتی ہے ”عذرگناہ بدترازگناہ“کہاجاتاہے کہ اپنی جماعت کرلیں گے، ذراسوچئے!کاروبارمیں توہرموقع پر ایسی چیزکواختیارکیاجاتاہے جس میں نفع زیادہ اورزیاں کم ہولیکن دین کے معاملہ میں اس پہلو کولیاجارہاہے جس میں نفع کم ہوزیاں زیادہ،کیااپنی جماعت مسجدکے ثواب کوپاسکتی ہے، جہاں ایک نمازکاثواب ستائیس نمازوں کے برابرملتاہے اور کیادیدہ ودانستہ ایساکرنے کو شریعت میں ممدوح اور مستحسن سمجھاجاسکتاہے،اسی طرح کیااس کاغلط اثرعوام نہیں لے گی؟
تراویح جوایک مسنون فعل ہے لیکن اس سنت نبوی کی ادائیگی میں ہم سے کس قدرکوتاہیاں سرزدہورہی ہیں اس پہلوپر توجہ نہیں دی جاتی،بعض جگہوں پرتودیدہ ودانستہ پارہئ عم کے اخیرکی دس سورتوں سے تراویح پڑھی جاتی ہے اور کھڑے نہ ہوپانے کاعذرکیاجاتاہے،اسی طرح بعض جگہ چاررکعتوں پرسلام پھیرنے کی عادت بنالی گئی ہے جو سنت کے خلاف ہے،عموماً شہروں میں تراویح کے سلسلہ میں ایک ”جدت“یہ پیداہوگئی ہے کہ صرف تین دن،پانچ دن اورسات دن میں تراویح میں پوراقرآن پڑھاجاتاہے، جوحفاظ تین تراویح میں پوراقرآن پڑھتے ہیں ان کے کوئی الفاظ سامع کی سمجھ میں نہیں آتے،روانی کا یہ عالم ہوتاہے کہ پتہ ہی نہیں چلتاکہ کب آیت شروع ہوئی اور کب ختم ہوئی،اسی طرح مقتدیوں کا حال اور بھی ابترہے کہ پچھلی صفوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب امام رکوع میں جاتاہے تو یہ مقتدی صاحبان دمادم اٹھ کرنیت باندھ کررکوع میں شامل ہوجاتے ہیں، تراویح کے دوران امام تو قراء ت میں مصروف ہے اور مقتدی گفتگو میں، یادرکھئے ایسے اعمال سے نہ توتراویح کی سنت ہی زندہ ہوتی ہے اور نہ ہی ایسی تراویح سے ثواب مل سکتاہے اور اللہ معاف فرمائے ایسی تراویح ہمارے لئے غضب الٰہی کو دعوت دینے کاکام کرتی ہے۔
تراویح کے لئے انتخاب امام میں بھی کسی شرعی ضابطہ کاخیال نہیں رکھاجاتا،عموماً”رمضانی حفاظ“سے یہ خدمت لی جاتی ہے جن کا حال بہت ہی خراب ہوتاہے،وضع قطع شریعت کے موافق نہیں ہوتی،گفتگوعامیانہ اور جاہلانہ ہوتی ہے،پورے سال مسجدمیں نمازکے لئے نظرنہیں آتے لیکن رمضان کی آمدسے کچھ پہلے ڈاڑھی رکھ لیتے ہیں،دوردرازکے شہروں میں چلے جاتے ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ اِن”رمضانی حافظوں“سے واقف نہیں ہوتے اور یہ صاحبان قدردان اپنے حفظ کا”پوراپورافائدہ‘‘اٹھاتے ہیں،یادرکھئے بندوں سے اپنے عیوب چھپانے سے آخرت نہیں سنورسکتی، اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک ایک چیزکاحساب ہوناہے اورفاسق شخص سے اس کی ”امامت“ کے بارے میں ضرورسوال کیاجائے گا۔
ایسے فاسق وفاجرافرادکے پیچھے تراویح اورقرآن شریف سننے سے بہتریہ ہے کہ کسی دیندارباشرع شخص کے پیچھے الم ترکیف سے تراویح پڑھی جائے،تراویح کے سلسلہ میں یہ عادت بھی بنتی جارہی ہے کہ ہفتہ دوہفتہ میں قرآن کریم کوتراویح میں سن کریہ تصورکرلیاجاتاہے کہ اب تراویح سے فرصت مل گئی ہے حالانکہ تراویح ایک مستقل سنت ہے اور قرآن کریم سنناالگ سنت ہے جولوگ ہفتہ دوہفتہ میں قرآن کریم سن کرباقی تراویح سے کنارہ کشی اختیارکرلیتے ہیں وہ بھی تارک سنت ہونے کی وجہ سے عنداللہ ماخوذہوں گے۔
اخیرمیں ایک دردمندانہ اپیل حضرات ارباب مدارس اور اہل خیرافرادسے ہے جورمضان المبارک میں چندہ دینے کا عام معمول بناچکے ہیں،دراصل زکوۃ نکالنے کیلئے اورزکوۃ اداکرنے کے لئے شریعت میں کوئی وقت کی تعیین نہیں رکھی گئی البتہ حولان حول یعنی سال کاپوراہوناشرائط میں سے ہے،اب اگرکوئی شخص مثلاً محرم الحرام سے اپناسال جوڑنے لگے تو اس کاسال اگلے ذی الحجہ تک پوراہوجائے گا، رمضان چونکہ صرف عبادت کے لئے ہے لیکن ہمارے علماء کرام نے حدیث نبوی من تقرب فیہ بخصلۃ من الخیرکان کمن ادی فریضۃً فیماسواہ ومن ادی فریضۃ فیہ کان کمن ادی سبعین فریضۃ فیماسواہ کی تعبیراور تشریح اس قدربیان فرمائی کہ لوگوں نے زکوۃ کو بھی رمضان المبارک میں نکالنے کو حدیث کی منشاء اور مرادسمجھ لیا،حالانکہ علماء کرام اگردینی مدراس کودرپیش حالات سے آگاہ کرکے یہ بتلاتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری نیتوں کو بھی جانتاہے دین کا وہ کام جس کی آج ضرورت ہے اگرفوری طورپر کردیا جائے تویہ اس سے اچھاہوگاکہ کام بگڑنے کے بعدکیا جائے۔
رمضان المبارک میں سبھی چاہتے ہیں کہ روزہ سکون سے رکھاجائے،افطارآرام سے کیاجائے،سحری اطمینان سے کھائی جائے،تلاوت زیادہ سے زیادہ کی جائے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے زیادہ دیرتک گڑگڑایاجائے لیکن زکوۃ وصول کرنے والے اہل مدارس کی یہ تمنائیں اورآرزوئیں اس لئے پوری نہیں ہوپاتیں کہ انھیں مجبوراًرمضان المبارک میں حصول زکوۃ کے لئے رخت سفرباندھناپڑتاہے(اورسفرکی حالت میں بھی ان کا روزہ رکھنابڑی بات ہے)انھیں نہ توصحیح وقت پر افطارنصیب ہوتا ہے اور نہ ہی تلاوت قرآن کا موقع مل پاتاہے،سحری کیلئے الگ فکرمندہوناپڑتاہے، تراویح اورنمازباجماعت کی ادائیگی ان حضرات کیلئے مستقل مسئلہ ہے،ایسی صورت میں اگرغورکیاجائے توشایداہل مدارس سے زیادہ قصورواراہل خیرحضرات ہوں گے جو رمضان المبارک میں علماء کرام کوحصول چندہ کیلئے رخت سفرباندھنے پر مجبورکرتے ہیں،چھوٹے مدارس توخیراس سلسلہ میں کوئی کلیدی کرداراداکرنے سے قاصرہیں لیکن بڑے مدارس کے ذمہ داران اگرمتحدہوکرایسا نظام بنائیں تو شایدان حضرات کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوگا اوردیگرچھوٹے مدارس والوں کے لئے بھی راحت کا باعث ہوگاکہ رمضان کے علاوہ کوئی مہینہ مقررکرلیں مثلاًشعبان المعظم یاشوال المکرم جوعام طورپرتعطیل اورداخلوں کا زمانہ ہوتاہے،ان میں پڑھائی بھی کم ہی مدارس میں ہوتی ہے اس لئے اگرماہ رمضان کے بجائے شعبان یاشوال میں اہل خیرحضرات سے عمومی اپیل کی جائے توکوئی بعیدنہیں ہے کہ یہی نظام بن جائے چنانچہ صوبہ پنجاب کے معروف ریاستی شہر مالیر کوٹلہ میں مظاہر علوم (وقف) کے مخیرین ومعاونین نے قدیم زمانہ سے الحمدللہ یہی نظام بنا رکھا ہے،مدرسہ کے نمائندے کو بلاکر اپنازر تعاون پیش کردیتے ہیں اس طرح مدرسہ کو بھی راحت ملتی ہے معاونین کو بھی سکون ملتا ہے اورنمائندہ کو بھی آسانی ہوتی ہے،اسی نظام کو اگر پورے ملک میں رائج کردیا جائے تو ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا چونکہ معطیان کی نیت یہ ہوگی کہ رمضان المبارک میں محصلین کو زیادہ سے زیادہ عبادت کے مواقع فراہم ہوں تو انشا اللہ ثواب میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور رمضان والا ہی ثواب اللہ تعالیٰ مرحمت فرمائیں گے۔
مضمون نگار:مفتی ناصرالدین مظاہری
استاذ مدرسہ مظاہرعلوم وقت سہارن پور،یوپی
nasirmazahiri@gmail.com