علوم وفنون کے بادشاہ ومحدث کبیرمفتی سعیداحمدپالنپوری کی کچھ یادیں کچھ باتیں

mufti-saeed

25رمضان المبارک 1441کی صبح کی خبر، جہاں علمی حلقوں میں بجلی بن کر گری، تو وہیں عام لوگوں میں بھی غم کی ایک لہر بڑی بےچینی سے دوڑ گئ، کانوں کو اپنی سماعت کی تصدیق پر جہاں کشمکش ہوئی تو وہیں قلوب وجگر کو تھام کر بیٹھنا پڑا ،کہ یہ صاعقہ کہیں اور گرے تو گرے مگر مجھ پر نہ گرے، مگر حکم خداوندی کی صداقت پر یقین “کل نفس ذائقتہ الموت “کی حقانیت پر یہ تشویش حقیقت میں بدل گئ اور ایک کڑواجام جس کی چسکی ہر مخلوق کیلئے لازمی ہے کی بات کو مانتے ہوے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصال کی خبر پر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذہنی اور جسمانی کیفیت اور ردعمل پر مرکوز ہوگئ اور بادل نخواستہ ہی سہی ماننا پڑا کہ علوم وفنوں کے پیکر ،افہام وتفہیم کے بادشاہ،گنجلک سے گنجلک مسائل کو چٹکی میں حل کرنے والے ماہر نظر،پیچیدہ سے پیچیدہ اسباب وعلل کو اپنی خصوصی انداز میں واضح کرنے والے فاضل محترم،احادیث کی باریکیوں کو صداقت سے واشگاف کرنے والے محدث جلیل،فقہ وفتاوی کے اصول وضوابط کو شرح وبسط کے ساتھ مدلل گفتگو کرنے والے متکلم اسلام،جرح وتعدیل کے امام وقت ،نظم ونسق کے بہتر ملکہ رکھنے والے ہر دلعزیز ،سینکڑوں کتابوں کے مصنف ومرتب ، طالبان علوم نبویہ کے دلوں میں رچنے بسنے والی عبقری شخصیت،دارالعلوم دیوبند کے مایہ ءناز صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث ،منطق وفلسفہ کے امام ،حضرت الاستاد مولانا ومفتی سعیداحمد پالنپوری ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہم خوشہ چینوں کو چھوڑ کر مالک حقیقی سے جا ملے “انا للہ وانا الیہ راجعون”

mufti-saeed-palanpuri

مفتی صاحب کی علمی اور عملی شخصیت پر گفتگو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، زمانہء حیات ہی میں ان کے برادر اصغر، دارالعلوم دیوبند کے مقبول استاد محترم ،جناب حضرت مولانا ومفتی محمد امین صاحب پالنپوری دامت برکاتہم العالیہ نے ان کی حیات وخدمات پر ایک خاکہ پیش کیا ہے ،جہاں سے حضرت والا کی شخصیت کا (جن کو رحمتہ اللہ علیہ کہنے پر کلیجہ منھ کو آرہا ہے)بخوبی اندازہ ہوجا تا ہے-

مگر کیا کیجیئے گا دستور زمانہ رہا ہے، وفا اور ایفا ء کا بھی تقاضہ ہیکہ اپنے محسنوں اور مربیوں کا ذکر جمیل بھی کرتے رہا کریں ،یہ بھی ایک کارخیر سے کم نہیں ،حضرت والا دارالعلوم دیوبند کے بہت قدیم اساتذہ میں سے ہیں ،تقسیم دارالعلوم کے قضیہ سے پہلے ہی آپ دارالعلوم کے استاد ہیں، ابتدائی درجات سے متوسطات کی سفر کرتے ہوےء علیا درجے کے استاد تک کے منصب پر فائز رہے ہیں، متوسطات میں سلم العلوم ،ہدایتہ الحکمت،اور میبذی کا درس بہت مقبول رہا ہے ،ایک لمبے عرصے تک” سنن ترمذی جلداول “کی درس کی مقبولیت عالم اسلام میں مشہور رہی ہے، اللہ اکبر مرحوم کا درس ،گھنٹںوں کا لمحہ فقط ایک وقفہ محسوس ہوتا تھا ،دخول درس گاہ سے خروج جرس کی صدااتنی جلد آجاتی تھی کہ دائیں بائیں پلکیں جھپکی مارتی تھیں اور دل کہتا تھا کہ کاش وقت ٹہر جاتا ،مخصوص لب ولہجہ میں کلام، ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنالیتے تھے ،اعتراضات کے حل کا نرالا انداز آپکو جل مجدہ کا خاص انعام تھا ،دارالحدیث کا تیسرا گھنٹہ، مغرب بعد کی کھچاکھچ بھیڑ، دارالحدیث کی شان میں چار چاند لگا جاتی تھی ،دیگر مدارس کے طلباےء کرام سے اساتذہ عظام تک کومیں نے کسب فیض کرتا ہوا دیکھا ہے ،شیخ اول حضرت الاستاد مولانا نصیر احمد خان صاحب نوراللہ مرقدہ کی وفات کے بعد باتفاق راےء مجلس منتظمہ دارالعلوم دیوبند نے شیخ اول کا انتخاب آپ کے نام پر کیا اور ضابطہء دارالعلوم کے مطابق شیخ اول ہی صدرالمدرسین ہوتے ہیں تو اس مناسبت صدر مدرس بھی آ پ ہی منتخب ہوےء اور آپ نے اپنی علمی اور عملی شخصیت سے دونوں عہدوں پر فائز رہتے ہوےء تعلیمی انتظام میں کافی بہتری پیدا کیا ،جس سےدارالعلوم کے مختلف شعبوں میں ترقی ہوئی اور آپکا درس بخاری بھی کافی مقبول اور مشہور رہا-

ہم طالب علموں کے ساتھ شفقت اور محبت کا ایسا معاملہ تھا،کہ ہمہ وقت طلبا کے حقوق اور مراعات کیلئے انتظامیہ سے اپیل کرتے ،وظیفہ، پارچہ، تقسیم لحاف اورسالانہ امتحانات کے انعامات تک کے معاملات پر اپنی مشفقانہ نگاہ رکھا کرتے تھے،جب کہ آپکی کتب بینی اور مطالعہ کی بات عام تھی ،500صفحات پر یومیہ نگاہ آپ کی خوراک تھی، اس کے باوجود درس کی پابندی ،اصول وضوابط پر، عمل اللہ اکبر خلوص کا ایسا تاج محل اس گناہ گار آنکھ نےآج تک تو نہیں دیکھا ،دارالعلوم دیوبند آےء دن مستقل اپنے ہیرہ و جواہرات سے محروم ہوتا جارہا ہے ،مولانا ریاست علی صاحب بجنوری اور شیخ ثانی حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی رحمہم اللہ جیسی عظیم اور دور اندیش شخصیتوں کے بعد حضرت مفتی صاحب کا وصال ایک عظیم خسارہ ہے ،علمی حلقوں میں کافی غم واندوہ ہے ،آپ ایک طرح سے مرجع خلائق تھے، جس سے سوگواران میں حزن وملال کی بھی لہر ہے اور ہم جیسوں کیلئے محرومی ہوئی کہ آخری زیارت تک نہیں ہوسکی،لاکڈاون کی وجہ سے لاکھوں محبین محروم رہ گئے،حضرت نے دوران درس کئ مرتبہ میت کی انتقال مقام پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور بتایا کرتے تھے کہ جن کی موت جہاں، جس مقام پر ہوجاےء وہیں تجہیزوتکفین کا معاملہ بھی ہونا چاہئے، شاید اسی تناظر میں آپ اہل ممبئی کے خاص ہوگئے
حضرت والا سے میرا اچھا لگاوء تھا،طلباےء بہار،اڑیسہ اور نیپال کے بزم سجاد کے افتتاحی اور اختتامی پروگرام میں گاہے بگاہے آپکی صدارت میں نظامت کی ذمہ داری احقر کے سر رہتی تھی ،بایں وجہ مجھے کچھ زیادہ مانتے تھے، علاوہ ازیں کافی یادیں، باتیں اورحضرت کے بتاےء علمی نکات ہیں، انشاءاللہ مستقل اس پر آئندہ گفتگو ہوگی –
اپ کے انتقال سے ایسا خلاء ہواہے ،جس کا پر ہونا مشکل ہے ،تاہم اللہ رب العزت سے دعا ہیکہ کوئ نعم البدل عطا کر اور ہمارے مربی، محسن، مشفق اور غمگسار استاد محترم کو اعلی علیین میں جگہ عطا کرکےبلند مقام عطافرما،بال بال مغفرت فرما،کروٹ کروٹ چین وسکون عطا فرما ۔
ع آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

مضمون نگار:شاہد عادل قاسمی
پرنسپل یتیم خانہ، ارریہ 9006607282

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *