تشویشناک حالات سے نکلنے کا قرآنی راستہ

arariatimes

وَلَاتَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ
ترجمہ: اور ہمت مت ہارو اور غم مت کرو تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان والے ہو
اس آیت کریمہ کا نزول غزوہ احد ٣؁ھ کے بعد ہوا جس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تھی پچہتر صحابۂ کرام شہید ہوئے تھے اور بہت سے صحابہ زخموں سے چور تھے ، خود حضور اکرمﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے اور زخم آئے تھے، ایسے حالات میں شدید رنج و غم کا پیدا ہو جانا ایک فطری امر تھا اسی کو دور کرنے اور پچھتاوے کو بھلاکر نئے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت دلانے کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا “وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا ۔۔۔۔۔۔” الآیہ. یعنی تمہارے دشمنوں نے تمہارے بعض ساتھیوں کو جو شہید کیا اور بعض کو زخم پہنچایا اس کی وجہ سے تم شکستہ دل مت بنو اور غم مت کرو کیونکہ فتح و غلبہ آخر تمہارا ہی مقدر ہے بس شرط یہ ہےکہ تم محمد رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین برحق پر زبانی و عملی طور پر مکمل ایمان رکھو
مشہور مفسر و مؤرخ علامہ محمد ابن جریر طبریؒ (پ ٢٢٤ھ ف ٣١٠ھ)جامع البیان عن تاویل آیہ القرآن میں یعنی تفسیر طبری میں اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں “اقبل خالد ابن الولید یرید ان یعلوا علیہم الجبل فقال النبیﷺ اللہم لایعلون علینا فانزل اللہ عز وجل ولاتھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین” یعنی غزوۂ احد میں حضرت خالد ابن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار مکہ کے ساتھ مسلمانوں سے لڑنے آئے تھے ، وہ احد پہاڑی پر چڑھ کر پیچھے سے مسلمانوں کو نرغے میں لینا چاہتے تھے اس وقت آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ وہ لوگ ہم پر حاوی نہ ہو پائیں
اسی کے متعلق اشارہ ہے کہ “ولاتھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین”۔
حافظ عماد الدینؒ ابن کثیر (پ ١٢١٠ھ ف ١٢٧٤ھ) نے اسی روایت کو مزید تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں یہ وضاحت بھی ہے کہ پہلے رسول اللہ ﷺ نے ایک دستہ کفار مکہ کو روکنے کیلئے بھیجا اس کے بعد آپ نے مذکورہ دعا فرمائی۔
علامہ محمود آلوسی بغدادیؒ (پ ١٢١٧ھ ف ١٢٧٠ھ) کی مقبول و معتبر تفسیر ” روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی” میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوۓ فرمایا ہےکہ “اگر تم ایمان والے ہو تو گھبرانا اور غم میں مبتلا ہونا تمہاری شان نہیں تمہیں اپنے اللہ پر مکمل یقین رکھنا چاہئے اور دشمن سے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے”۔اور آیت کے الفاظ اس تفسیری مطلب کی بھی گنجائش ہے کہ “اگر تم واقعی ایمان والے ہو تو غلبہ تم ہی پاؤگے کیونکہ اللہ پر یقین رکھنا اور ایمان کے تقاضے پر عمل کرنا اپنے اندر حصول سربلندی کی خاصیت رکھتا ہے”۔ اس موقع پر صاحب روح المعانی نے قرطبی کے حوالےعجیب تاریخی حقیقت واضح کی کہ اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد جتنی جنگیں ہوئیں سبھی میں صحابۂ کرام کو کامیابی نصیب ہوئی خواہ پوری فوج میں کوئی ایک ہی صحابیٔ رسول کیوں نہ رہے ہوں یہ سبھی صحابہ کی شان ہےبلا استثنا و تفریق۔ (اللہ ہمیں درسگاہ نبوت سے براہ راست فیضیاب ان حضرات کی محبت و عقیدت سے سرشار رکھےکیونکہ صحابۂ کرام کی محبت عین حضورﷺ کی محبت ہے اور ان سے بغض و عناد رسول اللہ ﷺ سے دشمنی ہے)۔
بہر کیف مفتی محمد شفیع عثمانیؒ (پ ١٣١٤ھ ف ١٣٩٤) اپنی مقبول خواص و عام تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں اس قرآنی آواز نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا اور پژمردہ جسموں میں تازہ روح پھونک دی۔
مذکورہ بالا سطور میں ائمۂ دین و ماہرین قرآن و سنت کی تفسیر و توضیح سے دو باتیں بالاتفاق واضح ہوتی ہیں:
(1) تشویشناک حالات سے گھبرانا اور ہمت ہار بیٹھنا مسلمانوں کا شیوہ ہرگز نہیں۔
( 2 ) ایسے حالات سے باہر نکلنے کا واحد قرآنی راستہ یہی ہے کہ اپنے باطن کو ایمان کی طاقت سے مضبوط اورظاہرکو اس کے تقاضے پر عمل آوری سے محفوظ کرلیا جائے ۔
اکبر الہ آبادی نے خوب کہا ہے

مجھ کو بد دل کردے ایسا کون ہے
یاد مجھ کو “انتم الاعلون” ہے

آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت غیر کا رعب اور ڈر دلوں سے نکال کر ہر مدعیٔ ایمان کو واقعی صاحب ایمان بنادے،کرنے کے کاموں کو ترجیحی بنیاد پر مستقل مزاجی سے کرنے کا حوصلہ دے،حرام و مکروہات سے صبر و پرہیز کی ہمت عطا فرمادے اور رسول پاک ﷺ کی سنتوں کو طرز زندگی (Life Style) بنانے کا ذوق و جنون عطاکرے،کہ یہی چیزیں مسلمانوں کے وجود، پہچان، آزادی اور کامیابی کی ضامن ہیں دوسرا کوئی راستہ نہیں۔

 

از: مفتی حسین احمد ہمدم
ایڈیٹر چشمۂ رحمت ارریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *