ایک دن وہ تمہیں تمھارے گھروں میں قید کریں گے . اور انکے پاس ہر طرح کے ہتھیار ہونگے ، تمہارے لئے . وہ تم سے تمہاری بے بسی کی قیمت بھی نہیں پوچھیں گے . اور تمہارے بچوں کے مستقبل میں نہیں ختم ہونے والا اندھیرا لکھ دینگے .
لاک ڈاون ، جب ہم نے خود کو رمضان اور عید کے موقع پر اپنے گھروں میں قید کر لیا ہے ، جب ہم دوسروں سے کہیں زیادہ لاک ڈاون کے اصولوں ، قاعدے قانون کے پابند ہیں ، اور اس بات کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ نفرت کی چاشنی تقسیم کرنے والا ایک بڑا طبقہ منصوبہ بند طریقے سے سازش انجام دینے میں مصروف ہے . اب یو ائے ای ، یو کے ، اسپین سے بھی آواز بلند ہونے لگی ہے اور امریکی ایجنسیاں بھی چیخ رہی ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ہراساں کرنا بند کیا جائے ، سوال ہے ،ہم کن امیدوں پر زندہ ہیں ؟ کیا راستہ بتانے والے حضرت خضر کی راہ دیکھ رہے ہیں ؟ مسلم علما کہاں ہیں ؟ رمضان کی عبادت اپنی جگہ مگر یہ دیکھنے ، سوچنے اور راہ عمل اپنانے کا وقت تو ہے کہ جب ابابیلیں آسمان پر قبضہ کر لینگی اور ہماری زمینوں پر ، تو ہمارا لاینحۂ عمل کیا ہوگا ؟ کپل سبل نے بھی مسلمانوں کے حوالہ سے بیان دیا ہے . اور اس وقت دنیا بھر کے دانشور ، ایجنسیاں ، ملک کے سیکولر مزاج لوگ بھی دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے .سب بول رہے ہیں .خاموش صرف مسلمان .. گھروں میں عبادت میں مصروف . دعا کا سہارا اور تدبیر کچھ نہیں . ملی جماعتیں اگر متحد ہو کر سامنے نہیں آتی ہیں تو ہم بیحد برے موسم کا شکار ہونے کے لئے تیار رہیں .
اٹل بہاری باجپایی کی سرکار کے وقت بھی زعفرانی تھذیب مسلط کرنے کی کوششیں ہوئیں تھیں . اس وقت حکومت اس قدر گونگی اور بہری نہیں تھیں .احتجاج اور انقلاب کا دباو محسوس کرتی تھی .عوام کے آگے جھک بھی جاتی تھی .مودی کی بی جے پی نے عوام کو ہی حاشیہ پر ڈال دیا۔پہلی بار ہندوستانی شہری حکومت کی عدالت کے آگے بے بس نظر آے – حکمت عملی یہ رہی کہ مخصوص شہری کو ہی گنہگار ثابت کر دو -یہ کام پوری تیاری سے کیا گیا ۔ہندوستانی سیاست نے کی ایسے خوفناک صفحے لکھ ،جسکے رنگ اور زایقے سے اب تک ایک دنیا واقف نہیں تھی۔انسانی تاریخ میں ظلم ،بربریت کی خونچکاں ہزار داستانیں قید ہیں .. جابر اور ظالم بادشاہوں نے بھی مظالم کی انتہا تو کی لیکن ملک کے مخصوص شہری کو کبھی مجرم اور قاتل تصور نہیں کیا . ہندوستانی حکومت نے جرم ،مجرم ،ظلم ،دولت ،عوام ،ضمیر ،ہیرو ،ویلین سب کی تعریفیں بدل کر رکھ دیں – اب لفظ و معنی کی نیی خوفناک دنیا آباد تھی .عدلیہ ،آیین ،ہر جگہ حکومت کا تسلط اور حکومت کے خلاف جانے والے دیش دروہی.
اصل ٹارگٹ مسلمان تھے . کنفیوژن کی فضاء پیدا کی گیی . مسلمانوں پر غداری کا تمغہ لگانے والے لاکھوں تھے .پھر کسی کا ایک بیان آ جاتا ، کمزور بیان کہ مسلمان بھی اسی ملک کا حصّہ ہیں . گولی مارو گینگ جشن مناتا رہا . ناگپور سے دلی تک فضاء کبھی مسلمانوں کے لئے سازگار نہیں رہی .
..مسلمان دیش دروہی ..دلت ،عیسایی سب دیش دروہی ..حزب مخالف دیش دروہی …پھر کس میں ہممت ہوتی جو حکومت کے خلاف سوچتا …حکومت کے خلاف بولتا ..گجرات ،مالیگاوں کے مجرم آسانی سے رھایی پا گئے – جو بے قصور تھے، مجرم ثابت ہوئے۔ عدلیہ کی عمارتوں سے ایک ایک کرکے ملزم آزاد ہوتے چلے گئے۔
کیا ہم ان حقیقتوں سے آگاہ نہیں تھے؟ ہم حکومت سے کن فیصلوں کی امید لگائے بیٹھے تھے۔؟
اقتدار میں آتے ہی ٹارگیٹ کے ساتھ نشانہ لگانا شروع ہوگیا۔ یہ گجرات کی حکومت تھی۔ تاجروں کی حکومت تھی۔ یہاں تاجر ہی رول ماڈل ہوسکتے تھے۔ تاجروں سے دشمنی مول لے کر حکومت نہیں کی جاسکتی تھی۔ مالیہ کو بھگایا۔ بینک سے قرض معاف کرایا۔ جب ملک کورونا کے عذاب میں مبتلا ہے ، ڈیفالٹرز کے قرض معاف کر دے گئے .اب غریبوں پر آفت تو آنی تھی۔ امبانی، اڈانی، برلا، کو سفید دولت کا محافظ ٹھہرایا گیا اور اب سڑکیں ویران . کورونا کا بڑھتا ہوا قہر ۔ مایوسی، ناکامی اوربے روزگاری کے کتنے مہینے زد میں آیینگے ، کون جانتا ہے . جو سرکاری ملازم نہیں ہے، جو تاجر نہیں ہے، کیا وہ اتنے دنوں تک بیکار رہے گا؟ اس کے پاس خالی مہینوں میں اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے کہ وہ گھر چلا سکے ۔ حکومت نے کورونا کے بہانے عام آدمی سے اسکے سکھ چھین لیے۔ رمضان اور عید خاموشی میں گزر جاییں گے . یہ سب ہے ، لیکن کورونا کے بہانے جس نفرت کو زندہ کیا گیا ہے ، اسکا خمیازہ کون بھگتے گا ؟ مسلمان . لاک داؤن کے ختم ہوتے ہی نفرت کا ایک ایسا بازار گرم ہونے والا ہے جہاں پیشے دو حصّوں میں تقسیم ہونے . مسلم ڈاکٹر .ہندو ڈاکٹر . مسلم پھل فروش ..ہندو پھل فروش . علاقے بھی شاید تقسیم ہو جاییں .
ہم مرتے ہوئے ہندوستان کے گواہ ہیں۔
ہم فرقہ واریت کی چھاؤں میں خوفزدہ اپنی نسلوں کو چپ رہنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔میڈیا اور حکومت نے مسلمانوں کو کھلے عام دہشت گرد ٹھہرانے میں بے شرمی کی ساری حدیں توڑ دی ہیں . ..یہ تجربہ بھی ھوا کہ ہمارا کویی نہیں .کانگریس مسلمانوں کا نام لئے جانے سے بھی خوف کھاتی ہے .دوسری سیاسی پارٹیوں کو بھی مسلمانوں کی حمایت منظور نہیں .مسلمانوں کا ووٹ سب کو چاہئے لیکن مسلمانوں کا نام لے کر کویی بھی اپنے ووٹ بینک کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاھتا .ہم نے سیکھا کہ ابھی بھی کچھ لوگ ہمارے ہیں .لیکن یہ لوگ اتنی کم تعداد میں ہیں کہ ان بیحد کم لوگوں کی حمایت سے ہمارا کویی مسلہ حل نہیں ہوگا .یہ لوگ بھی ان طاقتوں سے کہیں نہ کہیں خوفزدہ ہیں .پھر ہمارا کون ہے ؟
یہی سوال اہم ہے .ایک سو تیس کروڑ کی آبادی میں ہمارا کون ہے ؟
لاک داؤن میں اس سوال پر ضرور غور کریں . لاک داؤن ختم ہوتے ہی حالات بہت حد تک بدل چکے ہونگے .
رائٹر: مشرف عالم ذوقی
نوٹ:مضمون نگارکی ذاتی رائے ہیں،اس کیلئے ارریہ ٹائمز کسی طرح ذمہ دارنہیں ہے۔