اس ناسوتی، فانی اورطلسماتی دنیامیں اللہ تعالی نے رنگارنگ مخلوق پیدافرمائی، کم وبیش اٹھارہ ہزار مخلوق میں خالق کائنات نے حضرت انسان کو اشرفیت کا تمغہ بخشا اوربرسر عام اعلان کرادیا”کنتم خیر امۃ“ پھراس تغمہ کی اہمیت بھی بتائی اورایک ذمہ داری بھی عطافرمائی”اخرجبت للناس“ ذمہ داری کے اس احساس کے علاوہ انسان کو”فضیلت کاایوارڈ“ بھی دیا اور اپنے نبی کے ذریعہ یہ پیغام گھرگھر اوردردر پہنچادیا ”ولقد کرمنابنی آدم“پھر اسی برتری کے امتیاز اوربہتری کے تفوق کے ساتھ اس کوتمام سانچوں سے بہترشکل وصورت میں پیدافرماکر ایک اورفضیلت کی مہر لگادی”لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم“ اورپھراپنی عبادت اورانسان کی عبدیت کی ذمہ داری بھی بتادی اوراعلان فرمایا”وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون“ کہ میں نے انسانوں اورجنوں کوصرف اورصرف اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے۔
جولوگ سننے والے کان، رونے والی آنکھیں،خاموش رہنے والی زبان، تڑپنے والا دل، لرزنے والے قدم، پگھلنے والا کلیجہ اور ذکر خدا سے ہری اورخوف خداسے بھری زندگی رکھتے ہیں وہ جانے ہیں کہ لاکھوں انسانوں میں ”انسان“ نایاب ہے،آسمانی صحیفوں کا تسلسل ختم ہوگیا،انبیائے کرام کاوردومسعود رک گیا،صحیفوں کا نزول ساکت ہوا،لاکھوں آثارونشانات حضرت انسان کی آنکھ کھولنے کیلئے بظاہر ناکافی محسوس ہورہے ہیں، ایک لاکھ چوبیس ہزار خدائی فوج اسی حضرت انسان کی ہدایت کیلئے تشریف لائی لیکن نتیجہ ”رب لاتزر علی الارض من الکافرین دیاراً“ کی شکل میں ظاہر ہوا حضرت نوح علیہ السلا کا طوفان……حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پرعذاب…… حضرت صالح علیہ السلام کی بستی پر قہر……حضرت ہود علیہ السلام کی امت پرغضب …… حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت پرپے بہ پے آزمائشیں …… نمرود کا حشر…… فرعون کی غرق آبی…… قارون کا دھنسنا……شداد کی ذلت…… ہامان کی نحوست…… بوجہل، عتبہ،شیبہ،مکہ کے کافر…… مدینہ کے منافق…… شاتمان رسول…… دشمنان صحابہ سب ایک ایک کرکے خش خاشتاک کے مانند پیوندزمین ہوکرتاقیام قیامت نسلوں کے لئے عبرتوں کا سامان ہوئے……مگر ……”انسان“ نے پھربھی بھلائی کے راستہ سے انحراف کرکے اپنا نقصان کیا…… شرافت کے لبادہ کواتارکر خواہشات کے لباس کوپہن لیا…… پھر……قبائے عصمت کوپامال کیا……ردائے پاک کوناپاک کیا…… فضائے بسیط کوآلودہ اورحیاوشرافت کوشرمسار کرکے تالیاں بجانے میں فخرکیا…… پھرکیا ہوا؟……غضب الٰہی کی لپیٹ اورچپیٹ میں وہ بھی آئے جنہوں نے خدائی طاقت کوللکارا……وہ بھی آئے جمہوں نے صرف گوشہئ تنہائی میں بیٹھنے میں عافیت محسوس کی…… وہ بھی آئے جنہوں نے ”من رای منک منکرا فلیغیرہ بیدہ“ عمل نہیں کیا…… وہ بھی ئے جنہوں نے اس کی قباحت اورشناعت کودل سے برانہ جانا……وہ بھی آئے جنہوں نے مصلحتوں کے دبیرپردے میں ”انا“ کو تسکین بہم پہنچائی……وبھی آئے جنہوں نے”عصبیت“ کو فروغ دیا……وہ بھی آئے جنہوں نے حقدوحسدکو ہوادے کرماحول کوبگاڑنے میں کسی بھی طرح سے خواہی نخواہی کچھ نہ کچھ کرداراداکیا۔
سچائی یہ ہے کہ اللہ کے حضورمیں حاضری اورجوابدہی……کامیابی کی صورت میں جنت اورناکامی کی شکل میں جہنم کے فیصلے …… صرف اورصرف انسان اورجنات کیئے ہیں ……یہ بھی سچ ہے کہ راہ راست پرآنے کیلئے صرف اورصرف ایک راستہ ہے اوروہ صراط مستقیم ہے،جب کہ بہکنے،بھٹکنے اورپھلسنے کیلئے ہزاروں راستے ہیں …… صراط مستقیم کا رُخ جنت کی طرف اوردیگرتمام راستوں کا رخ جہنم کی طرف ہے۔
حضرت شبلیؒ کے ایک مسترشد نے کہا کہ میں خوا ب میں شیخ کودیکھا تومیں نے ان سے پوچھا کہ اے شیخ! آپ کے فیض یافتہ اصحاب میں سے کون زیادہ خوش بخت ہے؟ فرمایا! کہ جواللہ تعالی کی حرمات کا زیادہ خیال رکھنے والا…… اللہ کے ذکر کا زیادہ دلدادہ اللہ کے حقوق کو زیادہ قائم کرنے والا…… اللہ کی مرضیات پرچلنے والا……اپنے نقصان سے سب سے زیادہ واقف کاراوراللہ تعالی کے بندوں کی تعظیم کرنے والا ہو۔
کہنے والوں نے کہا،پڑھنے والوں نے پڑھا اورعمل کرنے والوں نے عمل بھی کرکے دکھادیا: کہ ہرچیز کا ایک زیور ہے اورسچائی کا زیور خشوع ہے…… ہرچیز کا ایک مہرہے اورجنت کا مہردنیا ومافیہا کا ترک کرنا ہے…… ہرچیز کا ایک معدن ہے اورسچائی کا معدن زاہدین کے دل ہیں …… ہرچیز کی ایک سچائی خوف خدا ہے…… ہرچیز کا ایک نشان ہے اورذلت ورسوائی کا نشان آہ وبکاکوترک کردیناہے…… جب دل میں خوف چھاجاتاہے توخواہشات خاکستر ہوجاتی ہیں ……دلوں سے غفلت کے دبیز پردے چاک ہوجاتے ہیں …… ناممکن ہے کہ انسان بیک وقت اللہ تعالی سے بھی رجوع کرے اورغیراللہ سے بھی تعلق برقرار رکھے…… کیسے ممکن ہے کہ ہمارا پیٹ انواع واقسام کی لذتوں سے بھرا ہوااورہمارا دل زنگ آلود نہ ہو……نفس کے تقاضے کے خلاف عمل کرنا ہی مبارک ہے…… جولوگ ایک خداکی پرستش کرتے ہیں اور پھرسیکڑوں خداؤں سے محبت کی لعنت اپنے دلوں میں لئے پھرتے ہیں وہ اپنے آپ کودھوکہ دیتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون ساہم نشین بہترہے؟ فرمایا: جس کے دیکھنے سے تمہیں اللہ کی یاد آئے، جس کے کلام سے تمہارے عمل میں اضافہ ہواورجس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔(مجمع الزوائد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آدمی اپنے ساتھی کے دین پرہوتاہے پس خیال رکھوکہ تم کس کواپنا دوست بنارہے ہو۔(ترمذی)
اکابرواسلاف کے بعد ان کے اقوال وملفوظات،ان کے حالات طیبات، ان کی بابرکت زندگیاں اورسوانحات بھی بہترین راہبر ہوتی ہیں،شاید یہی وجہ تھی کہ حضرت محمدبن یونسؒ جیسے عظیم محدث نے فرمایا تھا:(مختصرصفۃ الصفوۃ) میں نے قلوب کیلئے صالحین کے تذکروں سے زیادہ کسی چیز کومفید نہیں پایا۔
نیک لوگوں کی مجلسیں،محفلیں،ان کی باتیں اورکتابیں ہرچیز سراپا خیرہے، صحابہئ کرام کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابرکت ملی جس کے نتیجہ میں انہیں ”صحابیت“ کا شرف ملا اور پھر”رضی اللہ عنہ“ کا مژدہئ جانفزا میسرہوا۔
تابعین کوصحابہئ کرام کی صحبت میسر ہوئی جس کے نتیجہ میں ا ن کا مرتبہ بعد والوں کیلئے سب سے برترقرارپایا اورانہیں ”تابعی“ کا خطاب مستطاب حاصل ہوا، تبع تابعین کوبعد والوں پر فضیلت حاصل ہوئی تواس وجہ سے کہ ان کوایسے لوگوں کی صحبت ملی جنہیں براہ راست صحابہ کرام کی مجالس علم ومعرفت سے اکتساب فیض کی سعادت ملی تھی۔
بعض محدثین سے حق تعالی شانہ کا ارشاد مروی ہے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ:(مسند احمد)
بلاشبہ میرے بندوں میں سے میرے دوست،میری مخلوق میں سے میرے محبوب وہ لوگ ہیں جومجھے یادکرتے ہیں اورمیں ان کویادکرتاہوں۔
فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒ حضرت سفیان بن عیینہؒ کا یہ ارشاد باربار ارشاد فرماتے تھے کہ:جب صالحین کا ذکرخیر ہوتاہے اس وقت اللہ تعالی کی رحمت خاصہ کانزول ہوتاہے۔(ابن منذر)
ایک مسلمان جب اپنے بزرگوں کے حالات وکمالات اور ان کے ملفوظات وسوانحات کا مطالعہ کرتاہے تواس کوان بزرگوں کی اقتداء کی توفیق ملتی ہے، پڑھنے والوں کے قلوب کی اصلاح ہوتی ہے،انسان کواپنے آپ کی شناخت اورپہچان ہوجاتی ہے، اسے پتہ چل جاتاہے کہ وہ کہاں ہے اورکہاں ہونا چاہئے تھا، وہ شیطان کے کیدوفریب سے بچ جاتاہے،اس پرہدایت کی راہیں روشن ومنور اورمنکشف ہوجاتی ہیں، بزرگوں کے حالات وکمالات سے آگہی کے بعد ان سے محبت، صادقین کی معیت، حیات قلبی کا حصول، زندگی کے صحیح اصول وخطوط،غلط ومن گھڑت قصوں اور کہانیوں کوپڑھنے سے حفاظت، وقت کی قدردانی، طاعات وعبادات کا جذبہئ صادق، اور ادوادعیہ کا ذوق وشوق پیدا ہوتاہے۔
چنانچہ علامہ ابن جوزیؒ نے ایک عجیب وغریب اوراہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ:تمہارے لئے ضروری ہے کہ اسلاف کی سیروسوانح کودیکھو، ان کی کتابوں کا مطالعہ اوران کی زندگیوں کا مشاہدہ کرو۔(صیدالخاطر)
حافظ ابن قیمؒ نے شرح صدر کے اسباب میں دسواں سبب صحبت صالحین کوقراردیا اورفرمایاکہ: اللہ کے خاص بندے جب اللہ کے حدود کی محافظت اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل متابعت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے انہیں باطنی نعمتوں اور کرامتوں سے نوازتے ہیں،لہٰذا جب کوئی بندہ صدق وخلوص کے ساتھ ان کی مصاحبت کرتاہے تو اس کوبھی اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے نورقلب اورشرح صدرجیسی سعادتوں سے مشرف فرماتے ہیں۔
قاضی ثناء اللہ ؒ پانی پتی فرماتے ہیں:
نورباطن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم راازسینہئ درویشاں باید جست وبداں نورسینہئ خودرا روشن کردتاہرخیروشربفراست صحیحہ دریافت شود(مالابدمنہ)(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نورباطن کودرویشوں کے سینہ میں ڈھونڈناچاہئے اور اس نورسے اپنے سینہ کوروشن کرنا چاہئے تاکہ ہرخیروشرصحیح علم وفراست سے معلوم ہوجائے۔
ابوحامد علامہ غزالیؒ فرماتے ہیں:انبیاء کے علاوہ کوئی بھی ظاہری وباطنی عیوب وامراض سے خالی نہیں ہے لہٰذا ان امراض وعیوب کے ازالے کیلئے صوفیاء کے ہمراہ طریقت میں داخل ہوناضروری ہے۔
علامہ شعرانیؒ نے خوداپنا حال لکھا ہے کہ بغیرمرشد کے میرے مجاہدات کی صورت یہ تھی کہ میں صوفیاء کی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا پھر کچھ عرصہ بعد ایک کوچھوکر دوسرے کے طریقے کو اختیارکرتاتھا ایک عرصہ میرا یہی حال رہا،کیونکہ بندے کابغیر مرشد کامل کے یہی حال ہوتاہے، جب کہ مرشد کامل کا یہ فائدہ ہے کہ وہ مرید کیئے راستے کومختصر کردیتاہے اورجوبغیر مرشد کے راہ طریقت اختیارکرتاہے وہ پریشان رہتاہے اور عمربھر مقصد نہیں پاتا۔
محدث کبیر حضرت امام احمدبن جنبلؒ علم حدیث کے بلندمقام پرفائز تھے لیکن انہوں نے بھی اپنا اصلاحی تعلق ابوحمزہ بغدادیؒ سے استوار کیا،امام احمدبن حنبلؒ نے امام ابوقاسم جنیدبغدادی ؒ سے اورشیخ عزالدین بن عبد السلامؒ نے شیخ ابوالحسن شازلیؒ سے سلوک کی منزلیں طے کیں،اور مؤخر الذکر نے تویہاں تک فرمادیا کہ”شیخ شازلیؒ کی صحبت اختیارکرنے سے پہلے مجھے اسلام کی کامل معرفت حاصل نہ تھی۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ایک شخص طب کی کتابیں پڑھ لینے سے ڈاکٹر اور حکیم نہیں بن جاتااورنہ ہی ازخود اپنا علاج ومعالجہ کرنے پرقدرت رکھتا ہے اسی طرح قلبی اورروحانی امراض کیلئے ایک مزکی طبیب کی حاجت ہوتی ہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: تم علماء کی مجالس کولازم پکڑ و اورحکماء کی باتوں کو بغورسنو۔(الترغیب)
حضرت خواجہ محمدنقشبندیؒ فرماتے ہیں:جب کسی دوست کی صحبت میں رہو تواپنے حال سے باخبر رہواورگزشتہ حال سے موازنہ کرو، اگرفرق پاؤ تواس کی صحبت کولازم پکڑو اوراس کی صحبت کوغنیمت جانو۔
عوام کے علاوہ بہت سے علماء کرام بھی اس زعم میں مبتلا رہتے ہیں کہ انہیں علم دین حاصل ہے اسلئے اسلاف کی صحبت یا ان کی مجلس میں شرکت اور ان سے اکتساب فیض کی چنداں ضرورت نہیں ہے،وہ ہرچیزکو اپنے علم کی کسوٹی اورتحقیق کے ترازو میں تولنے کی کوشش کرتے ہیں،ایسے علماء کیلئے محدث طیبیؒ کا یہ ارشاد چشم کشااور بصیرت افروز ہوگا فرماتے ہیں:
”کوئی عالم علم میں کتناہی معتبر اوریکتائے زمانہ ہو،اس کیلئے صرف اپنے علم پرقناعت کرنااوراسے کافی سمجھنا مناسب نہیں بلکہ اس پرضروری ہے کہ وہ مرشد کامل کی مصاحبت اختیارکرے تاکہ وہ اس کی راہ حق کی طرف راہنمائی کرے“۔
جانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانا محمد سعیدی مدظلہ لکھتے ہیں ”اکتساب کیلئے ہمارے اکابر کے پیش نظر صرف کمال رہاہے،عمرنہیں،اوربزرگی کامدار عقل پرہے نہ کہ عمر پر،چنانچہ بہت سے باتوفیق حضرات کم عمری میں اصلاح وتقویٰ کی اس منزل پرپہنچ جاتے ہیں جہاں بڑی عمراور بڑے مجاہدے والے بھی نہیں پہنچ پاتے۔اسی طرح مسترشد کیلئے یہ چیز باعث ننگ نہیں ہونی چاہئے کہ اس کا مرشد عمرمیں چھوٹا ہے،ایسی بہت سی مثالیں ہمارے درمیان موجودہیں مثلاً حضرت مولانا علامہ ابراہیم بلیاویؒ نے اپنے شاگرد حضرت الہ آبادیؒ سے رجوع کیا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ جومظاہرعلوم کے ناظم اعلیٰ تھے اوران سے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجرمدنیؒ نے شرف تلمذ حاصل کیا تھا لیکن خلافت ان کے شاگرد رشید شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ نے دی تھی۔(فیضان اشرف)
اپنے اسلاف کوان کی قربانیوں کو،ان کے عزائم اورمقاصد کو،ان کی تحریک اورمشن کو، ان کی باتوں اورکتابوں کوجاننا اورواقف رہنا تمام مسلمانوں کیلئے ضروری ہے جولوگ اپنے اسلاف کی کتابوں اورملفوظات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں ان کے مطابق اپنی عملی زندگیوں کے سدھارنے اورسنوارنے کی فکر کرتے رہتے ہیں وہ الحمدللہ گمراہ نہیں ہوتے ہیں اورجولوگ ان سے ہٹ کر زندگیاں گزارتے ہیں،اپنی زندگیوں میں انفردایت لانے کی کوشش کرتے ہیں،پرانی راہوں کو ترک اورجدید راہوں کو اختیارکرتے ہیں وہی رفتہ رفتہ گمراہ ہوتے ہیں۔
مضمون نگار:مفتی ناصرالدین مظاہری
استاذ مدرسہ مظاہرعلوم وقف سہارنپور