جیا بچن کی خواہش…

jaya-bachchan

معروف فلم اداکار امیتابھ بچن کی اہلیہ اور سماجوادی پارٹی کی رکن راجیہ سبھا جیا بچن نے ایوان میں مطالبہ کیا ہے کہ عصمت دری کے مجرموں کو عوامی طور پر سزا دی جائے۔۔۔ان کی لنچنگ کی جائے۔۔۔۔!
یہ مطالبہ حیدر آباد کے حالیہ واقعہ کے تناظر میں کیا گیا ہے۔۔۔ کل دونوں ایوانوں میں اس پر زوردار بحث بھی ہوئی ہے۔۔۔ حیدرآباد میں جانوروں کی ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ بہت ہی درد ناک اور خوفناک ہے۔۔۔ اس کے قصورواروں سے کسی کو کوئی ہمدردی نہیں۔۔۔ انہیں جلد ازجلد کیفر کردار تک پہنچایا جانا ضروری ہے۔۔۔
دہلی میں 2012 میں دسمبر کی ایک رات ایک انتہائی خوفناک اور دردناک واقعہ رونما ہوا تھا۔۔۔ حیدرآباد سے بھی زیادہ درد ناک۔۔۔۔پورے ملک میں عدیم المثال احتجاجی مظاہرے ہوئے۔۔۔ ایک سخت قانون بنایا گیا۔۔۔ تیز رفتار عدالتیں بنائی گئیں۔۔۔ لیکن 2012 کے مجرموں کو سزائے موت کے فیصلے کے باوجود آج تک سزا نہیں دی جاسکی۔۔۔ اس کے بعد سے اب تک عصمت دری کے ہزاروں واقعات ہوچکے ہیں۔۔۔ جموں میں کٹھوعہ کا واقعہ بھی سب کو یاد ہوگا۔۔۔ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ ہندوستان میں حقوق انسانی کی رضاکار انجمنیں سزائے موت کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔۔۔

سماجوادی پارٹی کا سزائے موت پر کیا موقف ہے نہیں معلوم لیکن اس کے بانی ملایم سنگھ کا یہ بیان یاد ہے جس میں انہوں نے مراد آباد کے ایک جلسہ میں عصمت دری کے ملزمین کے حوالہ سے کہا تھا کہ ‘لڑکے تو لڑکے ہوتے ہیں ‘ غلطی ہوہی جاتی ہے’… میں نے نہیں سنا کہ جیا بچن نے اپنے سربراہ کے اس بیان کی مذمت کی ہو۔۔۔ اگر ایسا کرتیں تو تیسری مرتبہ راجیہ سبھا میں نہ پہنچ پاتیں۔۔۔

جیا بچن بہت عرصہ سے ایوان میں ہیں۔۔۔ میں نے اب سے پہلے ان کی ایسی تقریر کبھی نہیں سنی۔۔۔ 2012 کے تناظر میں بھی نہیں۔۔۔ کٹھوعہ کے واقعہ میں تو بالکل نہیں۔۔۔ لنچنگ کی اصطلاح 2014 کے بعد مشہور ہوئی جب گؤ دہشت گردوں نے دادری کے محمد اخلاق کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔۔ پھر جنید’ پہلو’ تبریز۔۔۔ ایک طویل سلسلہ۔۔۔ کبھی جیا بچن کا بیان نہ دیکھا نہ سنا۔۔۔ کم سے کم پارلیمنٹ میں تو کبھی نہیں سنا۔۔۔ انہوں نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ لنچنگ کرنے والوں کی بھی لنچنگ کی جائے۔۔۔ لنچنگ تو دور قانونی سزا کا بھی کبھی مطالبہ نہیں کیا۔۔۔
اب حیدرآباد کے تناظر میں انہوں نے یہ غیر قانونی اور غیر آئینی مطالبہ کیا ہے تو اس کا کوئی پس منظر ضرور ہوگا۔۔۔ انہوں نے بالواسطہ ہجومی تشدد کی وکالت کی ہے۔۔۔ اپنے عواقب کے اعتبار سے ان کا یہ مطالبہ بھی لنچنگ سے کم شدت کا حامل نہیں ہے۔۔۔
حیدر آباد کے واقعہ میں شروع میں ایسا ظاہر ہوا کہ مجرمین مسلمان تھے۔۔۔ شدت پسند طبقات نے ذرائع ابلاغ پر مسلمانوں کے خلاف منافرت انگیزی شروع کردی۔۔۔ کچھ چینل اور ہندی کے اخبارات بھی اُسی سمت دوڑنے لگے۔۔۔ بعض مسلمان بھی ‘معذرت خواہانہ’ انداز میں عوامی سزا کا مطالبہ کرنے لگے۔۔۔ کچھ نے اسلامی سزا کا بھی مطالبہ کرڈالا۔۔۔بعد میں چار ملزمین میں تین نام ہندؤں کے آنے لگے اور مسلمان کا ایک نام رہ گیا۔۔۔

جیا بچن نے ایوان میں اپنی بات کو تقویت پہنچانے کے لئے یہ بھی کہا کہ ‘ کئی ملکوں میں بھی Public punishment دیا جاتا ہے۔۔۔ وہ شاید سعودی عرب اور ایران کی طرف اشارہ کرنا چاہتی تھیں ‘ تاہم انہوں نے ان ملکوں کا نام نہیں لیا۔۔۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ سعودی عرب اور ایران میں عوامی سزا ضرور دی جاتی ہے لیکن عوام کے ہاتھوں نہیں بلکہ عدالت کے ذریعہ دی جاتی ہے۔۔۔ ملکوں کا ذکر کرنے کے بعد انہوں نے خود کو واضح کیا۔۔۔ انہوں نے عوامی سزا کی بجائے پھر لفظ لنچنگ Lynching استعمال کرکے اسی ہجومی تشدد کا مطالبہ کیا جس نے اب تک 70 سے زیادہ بے قصور مسلمانوں کی جان لے لی ہے۔۔۔ سوچتا ہوں کہ اس سماجوادی خاتون لیڈر کو کیا نام دوں۔۔۔ کیا اندر سے سب ایسے ہی ہیں۔۔۔؟

ایم ودود ساجد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *