عدل ومساوات دیکھنے میں تو انتہائی مختصر لفظ ہےلیکن اس کے اندر انتہائی گہرائی و گیرائی ہے۔اسلام نے کسی چیز پر اتنا زور نہیں دیا ہے جتنا کہ عدل پر ۔ایک متحرک اور فعال قوم اگر عدل سے نا آشنااور بے بہرہ ہوتو وہ جینے کا حق نہیں رکھتی،قوموں اورملتوں کے عروج وزوال کی داستانیں تاریخ کے اوراق میں سنہرے وجلی حرفوں سے لکھے ہوئے ہیں کہ دنیا میں اسی قوم کو سرفرازی و سربلندی نصیب ہوئی جس نے عدل کواپنا شعاربنالیا،عدل اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں سے ہے،مذہب اسلام میں عدل کوبڑی اہم اوربنیادی حیثیت حاصل ہے۔
اسلام میں عدل کا تصور:-
زندگی کے ہرمرحلےمیں،ہر موڑپر،معاملات میں،مسائل میں،مدعی ومدعی علیہ بنے میں،غرض ہر گام پر عدل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اسلام مے عدل کاجوحکم دیاہےاس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ انصاف کرواوراپنے ساتھ بھی اور ان نعمتوں کے ساتھ بھی جورب نےتمہیں عطاکی ہیں۔اسلام نےعدل کے معاملے میں حدود مقررکردئیے ہیں ان سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا،جہاں معاملہ فقط ذات کا ہو تو وہاں اختیار حاصل ہے کم دے یا زیادہ اور جہاں معاملہ عمومی ہو وہاں صرف اورصرف عدل ہی سے کام لیاجائے گا احسان سے نہیں۔
صلہ رحمی:-
اسلام نے صلہ رحمی پے بھی خوب زور دیا ہے آیات قرآنیہ اورفرمان نبویﷺ دونوں ہی اس حقیقت کو اجاگرکرتے ہیں ۔جس سماج میں صلہ رحمی کو نظر انداز کیا جاتاہو وہ سماج نہ پنپ سکتی ہےاور نہ پنپنے کا اسے حق حاصل ہے۔
عدل انبیاء کے ساتھ:-
قرآن مجید میں چند انبیاء کرام کے تذکرے آئے ہیں اکثر کے نہیں، پر قرآن جن کا نام لیتاہےاور جن کا نہیں سب کابلااستثناءاحترام کرتا ہے،ان کی تعلیمات کو ”ہدایت”کے پرشکوہ الفاظ سے یاد کرتاہے،ان کے ایثاروقربانی اور دیگر محاسن کو حسین و دلکش انداز میں بیان کرتاہےاور انہیں وہی رتبہ دیاجاتا ہے جس کے وہ مستحق ہیں لیکن دیگر مذاہب میں اپنوں کی تعظیم اور دیگر کی تحقیر کی جاتی ہے۔اسلام اور مذہب اسلام اس سے بری ہے وہ سب نبیوں کو تعظیم و تکریم میں مساوی قراردیتاہے۔
عدل منکرین ومشرکین رب کے ساتھ:-
اسلام کفرو شرک کےخلاف ایک مستقل و مکمل آواز ہے،وہ اس لئے آیا ہے کہ کفرو شرک کو محو کرمخلوق کو خالق حقیقی سے ملادے۔اسلام سے قبل دنیا دوحصوں میں منقسم تھی ایک کفر میں دوسراشرک میں، اسلام اپنی آمد کے بعد ان گروہوں کو اعمال بد اور مضر اثرات سے باخبر کیا،ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو ان کے حق میں عدل وانصاف اور مساوات ورواداری کا حکم دیاجس کی نظیر حیات صحابہ میں جابجا ملتی ہے۔
عدل عزیزوں و رشتہ داروں کے ساتھ:-
انسان پر صرف اپنا ہی حق نہیں ہے بلکہ اہل و عیال ،دوستوں،پڑوسیوں،ساتھیوں،مسکینوں اور محتاجوں کا بھی حق ہے۔اسلام نے ان تمام کے حقوق کو ادا کرنے کے لئے کہا ہےاوران کے مابین عدل سے کام لیا ہےکہ عزیزوں و رشتہ داروں کے حقوق کو مقدم رکھا ہے جو اسلام میں عدل کی واضح مثال ہے۔
عدل دوستوں اور شناساؤں کے ساتھ:-
انسانی سوسائٹی میں بہت سے امراض گھن کی طرح لگے ہوئے ہیں ،بدظنی وبدگمانی اکثر لوگوں کا شعاربن چکا ہے،کسی میں اچھائی تلاش کرنے کےبجائے برائی تلاش کی جاتی ہے،کسی کو خواہش ہوتی ہے کہ کسی کو اپنا راز داربنائے تو لوگوں کی نگاہیں شرارت کرنے لگتی ہیں اور زبانیں بیشمار لغو سوالات۔اسلام نے ایسے لوگوں کی سرزنش کی ہے ،سورہ حجرات میں ایسے لوگوں کو سخت انداز میں متنبہ کیا ہے۔
عدل مجرم کے ساتھ :-
جرم کئی طریقے کے ہوتے ہیں مثلا چوری،ڈاکہ زنی،تہمت،غیبت،بد عہدی و خلاف ورزی،قتل وغارتگری،شراب نوشی،جوابازی،سٹہ بازی وغیرہ،یہ جرائم ہیں، ان کا مرتکب مجرم ہے۔اسلام نے اس کے لئے تعزیر و عقوبت بھی تجویز کی ہے،جرم کے حساب سے سزا ہے،لیکن ہر قسم کے مجرم کے ساتھ یکساں سلوک کرنا اسلام کے مزاج و عدل کے خلاف ہے،قانون کو اپنے ہاتھوں لے کر شک و شبہ کی بناء پر موت کے گھاٹ اتار دینا ظلم ہے ،اسلام ظلم گوارہ نہیں کرتا۔وہ مجرم کونہ صرف شبہ کا بھی فائدہ دیتا ہے بلکہ سزا دیتےوقت گردو پیش کے حالات و مؤثرات کو بھی پیش نظر رکھتا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عدل مساوات انسانی سماج کے لیے ناگریز ہے،آج دنیا مساوات کی پہلو پر گامزن ہے پر عدل کو چھوڑ کر جس کی وجہ سے گاڑی بے ترتیب چل رہی ہے ،سماجی تانے بانے بکھر رہے ہیں،آج عدلیہ وحکام ،ارباب حکومت و ترجمان ،خاص طور سے عوام کی بات حکام تک پہونچانے والی “ذرائع” عدل “سے یکسرتہی دامن ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے سماج میں بھید و بھاؤ، نفرت و عداوت پروان چڑھ ہی ہے اور معصوم جانیں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں۔
وقت کاتقاضہ ہےکہ راجہ عدل سے کام لیں تاکہ پرجا میں امن کا ماحول قائم ہو جائے اور دنیا اخوت و بھائی چارگی ومحبت والفت کی جیتی جاگتی مثال بن جائے ۔
محمد راغب عالم القاسمی
مدرسہ اسلامیہ گیاری،ارریہ