انسان اورانسانیت

Insan-Aur-Insaniyat

انسان مخدوم کائنات ہے،ذرہ سے لے کر آفتاب تک ہر چیز اس کی خدمت پر کمر بستہ ہے،کائنات میں خدائی تخلیق کا شاہکار ہے،اسی بارگاہ سے وہ مسجود ملائک بھی بنا______________________
کچھ بھی نہیں اورسب کچھ ہوں،پر دیکھو چشم حقیقت سے
میں ہوں ظفر مسجود ملائک ،گرچہ خاک کا پتلا ہوں
اس کےبرخلاف اگر یہ انسان اخلاقی گراوٹ پے آتا ہے ،افعال بد میں مبتلاہوتاہے ،تو یہ ایسے انسان بدترین مخلوق بن جاتا ہے یعنی بشکل انسان شیطانی کردار ادا کر رہا ہوتاہے تو اس کے سامنےدرندہ صفت حیوان بھی شرماجاتا ہے۔
جب انسان ذہن کی طاقتوں کو برائی میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے برائی ہی کی توفیق دیتاہے اور پستی کی انتہا تک پہونچادیتاہے-لالچ،خودغرضی،خود پسندی،انا پرستی،نشہ بازی،کمینہ پنی اور ہٹ دھرمی اور ایسی ہی دوسری خصلتوں سے جو لوگ متصف ہوتے ہیں وہ واقعی انسانیت کے لئے کلنک ہیں-

انسان کا بنیادی اور امتیازی وصف انسانیت ہے ،اگر یہ وصف انسان کے اندر ہے تو اس کے پاس کچھ نہ رہتے ہوئے بھی سب کچھ ہے اور اگر یہ نہیں ہے تو سب کچھ رہتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہے- اچھے انسان کی پہچان یہ کہ اپنے جیسے انسان سے وہ انسیت رکھتا ہے،صلح،رواداری،امن وسلامتی اور نفع رسانی کے جذبات سے اس کا قلب موجزن رہتا ہے،خدمت انسانیت کو باعث فخر سمجھتا ہے،ہر اس چیز سے اپنے آپ کو بچائے رکھتا ہے جس سے انسان اور انسانیت ذلیل ہوتا ہے،کبروغرور سے بچتے ہوئے تواضع کی صفت کو اپناتاہے ،خدمت خلق سے خدا پانے کی کوشش کرتا ہے-

آج انسان اپنی انساںیت کو بالائے طاق رکھ کر دوسروں میں انسانیت تلاش کرتا پھرتا ہے،ہرطرف خون ہی خون ہے،ہر فرد یہ کہکر دوسروں کی جان لینے پر تلا ہواہے کہ اس میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے-مگر مارنے والے سے کوئی پوچھے تو سہی تم میں انسانیت ہے؟
اقتدار ،حب جاہ وحب ثروت کی ہوس نے انسانوں کو انسانوں کے خون کا پیاسا بنادیاہے،کہیں مذہب کے نام پر،کہیں ذات و برادری کے نام پر،تو کہیں علاقیت کے نام پر ،کہیں عزتیں پامال ہورہی ہیں تو کہیں عصمتیں لٹ رہی ہیں تو کہیں معصوم بچے غلاظت کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں-
بات سب انسانیت کی کرتے ہیں مگر انسانیت زیادہ تر انسانوں سے مرچکی ہے،آفس والے رشوت لے کر،ڈاکٹر مذہب پوچھ کر ،دوستی مال دیکھ کر ،سیاست ذات پات پر کر رہے ہیں تو کیا اس سے انسانیت زندہ آباد ہوگی؟

انساں کی بلندی و پستی کو دیکھ کر
انساں کہاں کھڑا ہے ہمیں سوچنا پڑا

اپنےمذہب کو مانیں ،اس سے محبت کریں،اس کے مطابق چلیں،مگر دوسرے مذاہب سے نفرت نہ کریں،کیا کوئی مذہب آپ کو حیوان بننے کا درس دیتا ہے؟نہیں نا-مذاہب مختلف ہیں پر ا‌نسانیت کا رشتہ مختلف نہیں ہے-ہم‌ نے نا جانے کیوں انسانیت کا رشتہ بھلا دیا ہے،لوگ کہتے ہیں ہم نے ترقی کرلی ہے- واہ!سلام ہے ایسی ترقی پر جس نے انسان کے اندرسے انسانیت کے احساس کو مار ڈالا-یہ کیسے لبرل ہیں؟ جو کہتے ہیں ہم آزاد خیال ہیں ان کو صرف یورپ میں مرنے والے انسان نظر آتے ہیں دیگر ملکوں میں نہیں-وہ بلندی ،وہ ترقی اور وہ آزادی کس کام کی کہ انسان چڑھے اور انسانیت سے گر جائے-

ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیاں نے لاکے چھوڑ دیا

انسانوں سے پیارو الفت بوقت ضرورت ان کی مددواستعانت ہر مذہب میں مستحسن ہے مگر مذہب اسلام نے خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیاہے-مسلم شریف کی روایت ہے،”مخلوق اللہ کا کنبہ ہےاور اللہ کے نزدیک سب سے بڑا محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے لئے زیادہ نافغ ہو”-ایک روایت میں ہے،”اعمال میں اللہ تعالی کے یہاں سب سے پسندیدہ وہ ہے جن سے مسلمانوں کو خوشیاں ملیں،یا ان سے تکلیف دور ہوں ،یا ان سے قرض کی ادائیگی ہوں،یاان سے بھوکوں کی بھوک دور ہوں”-
خدمت انسانیت دونوں جہاں میں قابل اجر کام ہے ،ابو داؤد کی روایت ہے,”جو کسی انسان کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہو،اللہ اس کی حاجت پوری کردیتا ہے،اورکسی مسلمان کی تکلیف اوربےچینی کو دور کرنے میں مدد کرتا ہےاللہ اسے قیامت کے دن بے چینی و تکلیف سے نجات دےگا”-
صحیحین کی روایت ہے،”جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اسے اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے”-
ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے اپنے انداز سے انسان کے انسانی جذبات کو پروان چڑھائیں کیوں کہ ایک انسان دوسرے انسان سے مایوس ہوسکتا ہے لیکن انسانیت سے نہی-اس لئے کہ انسان صرف زمین میں سانس لیتا ہے اور انسانیت زمانوں میں زندہ ہے-

آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
اک توجہ چاہئیے انساں کو انساں کی طرف

اللہ تعالی ہمیں انسانیت کی خدمت کرنے ، مصیبت کی گھڑی میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے،ضرورت مندوں کی حاجت روائی کی توفیق وحوصلہ عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔
درد دل،پاس وفا،جذبۂ ایماں ہونا
آدمیت ہے یہی اوریہی انساں ہونا

مضمون نگار:محمد راغب عالم القاسمی
مدرس مدرسہ اسلامیہ گیاری ارریہ
7903635978

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *