سکھوں کو سلام

sikh

عید الفطرسے قبل سکھوں نے دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد کو سینی ٹائز کرکے جذبہ خیر سگالی کا ایک اورثبوت پیش کیا ہے۔انسانی حقوق کی ایک غیرسرکاری تنظیم کے بیس سکھوں نے گذشتہ روز جامع مسجد پہنچ کرمسجد کو پوری طرح سینی ٹائز کیا۔یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ دیگر مساجد کی طرح دہلی کی شاہجہانی مسجد کے دروازے بھی عوام کے لئے بند ہیں۔صرف مسجد کا عملہ ہی وہاں نماز ادا کررہا ہے۔ الوداع کے بعد آج یہاں عید الفطر کی نماز بھی سماجی فاصلے کی پیروی کرتے ہوئے مسجد کے عملہ نے ہی ادا کی ہے۔

’یونائٹیڈ سکھ‘نامی این جی او کے ڈائریکٹر پرمیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ”کووڈ 19کی وبا عام ہونے کے بعد ہم لوگ عبادت گاہوں کو سینی ٹائز کررہے ہیں۔ان عبادت گاہوں کو حکومت کی طرف سے کھولنے کی اجازت ملنے سے قبل ہی ہم انھیں پوری طرح سینی ٹائز کرناچاہتے ہیں تاکہ خدا کا کوئی بندہ اس بیماری کا شکار نہ ہو۔اس سے معاشرے میں ایک اچھا پیغام جائے گا اور خیر سگالی کے جذبہ کو جلا ملے گی۔“یہ تنظیم اب تک کئی گرودواروں اور چرچوں کو سینی ٹائز کرچکی ہے۔جامع مسجد کے شاہی امام مولاناسید احمد بخاری کا کہنا ہے کہ ”تین روز قبل مذکورہ این جی او نے جب ان سے رابطہ قائم کرکے سینی ٹائز کرنے کے لئے کہا تو انھوں نے فوراً اس کی منظوری دے دی، کیونکہ اس طرح کے کاموں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے، جو وقت کا سب سے بڑاتقاضاہے۔ اس سے مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔“

sikhs

مجھے اس واقعہ کے بعد برسوں پرانا ایک واقعہ یاد آیا۔ ہوا یوں کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے نزدیک واقع نئی دہلی کی جامع مسجد کی بجلی لاکھوں روپوں کا بل ادا نہ ہونے کی وجہ سے کاٹ دی گئی تھی۔ مسجد کا انتظام وانصرام دہلی وقف بورڈ کے تحت تھا اور وہ اپنی خستہ حالی کے سبب بل ادا نہیں کرپارہا تھا۔ مسجد کے امام قاری محمد ادریس مرحوم کی تمام کوششیں رائیگاں جارہی تھیں۔مسجد مسلسل تاریکی میں تھی۔ ایک دن مغرب کی نماز کے بعد سکھوں کا ایک وفد کئی پیٹرومیکس لے کر وہاں آیا اور کہا کہ خدا کے گھر میں اندھیرا مناسب نہیں ہے، لہٰذا ہماری طرف سے روشنی کا یہ عطیہ قبول کیجئے۔ قاری ادریس صاحب نے بوجہ یہ پیشکش قبول نہیں کی۔بعد کو بڑی کوششوں کے بعد بجلی کا بل معاف ہوا تو مسجد میں روشنی آئی۔ اب صورتحال بہت بہتر ہے اور ایک صاحب خیر نے تن تنہا اس مسجد کی تزئین و مرمت پر اپنی جیب خاص سے 25 لاکھ روپے خرچ کرکے اس کی کایا پلٹ دی ہے۔

یوں تو اس ملک میں سبھی فرقے چیرٹی کا کام کرتے ہیں، لیکن اس معاملے میں سکھ فرقہ کے لوگ سب سے آگے ہیں۔مزدوروں کے حالیہ بحران میں مسلمانوں نے بھی اپنے برادران وطن کی بہت مدد کی ہے، لیکن اس معاملے میں بھی سکھوں نے بازی ماری ہے۔آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں چلنے والا لنگر کورونا کے دور میں بھی ہزاروں ضرورت مندوں کے پیٹ بھررہا ہے۔روٹی بنانے کی خودکار مشینوں سے یہاں ہرروز دس ہزار سے زیادہ لوگوں کے لئے لنگر تیار ہورہا ہے۔ گولڈن ٹیمپل میں ہرسال 35 ہزار کوئنٹل گیہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں چوبیس گھنٹے لنگر چلتا رہتا ہے۔ مجھے بھی ایک بار یہاں لنگر کھانے کا موقع ملا تھا۔انسانیت کی خدمت ہی سب سے بڑا مذہب ہے اور ہم لوگ جس مذہب کے پیروکار ہیں، اس میں انسانیت کی فلاح وبہبود اور نجات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے باوجود اس معاملے میں دوسرے مذاہب کے لوگ ہم سے آگے کیوں ہیں۔ یہ سوچنے کا مقام ہے۔

تحریر:معصوم مرادآبادی

Leave a Reply

Your email address will not be published.