حالیہ چند دنوں میں گالیوں کی بہارسی آگئی ہے ۔شوشل میڈیا اس کے لئےتخت مشق بناہوا ہے ۔ٹوئٹر، فیس بک، واٹس ایپ کوگالیوں کے تبادلے میں آلہ کار کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔اس سے بآسانی کسی کو بھی کہیں سےکیسوبھی گالی دی جاسکتی ہے اور دی جارہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس میدان کے مہارتھی اپنی گالیانہ وگلیانہ صلاحیت کا برملا وبرجستہ اظہار کررہے ہیں ، اس میدان میں ایک دوسرے کومات دینے اورسبقت لے جانے میں کوشاں نظرآرہےہیں ۔ یہاں پر اس تحریر کے قاری کومیرے اس لفظ “گلیانہ صلاحیت “سے اعتراض ہو سکتا ہے کہ :بھئ یہ گلیانہ صلاحیت کس پرندہ کانام ہے؟اورتشویش بھی ہوسکتی ہےکہ، گالیوں کے ساتھ یہاں گلی کاکیاربط تعلق ہے؟ یہ لف ونشرغیرمرتب چہ معنی دارد؟ تو لیجئے پہلے اعتراض ہی کا حل پیش خدمت ہے ۔
گالی دراصل گلی سے ہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئ کسی کو گالیاں دیتا ہے، تو کہتے ہیں کہ اسے گلیا رہا ہے، اور اس عمل کو گلیانہ ہی کہتے ہیں ۔گلی اورگالی کاآپس میں رشتہ مچھلی اورپانی کاہے۔جس طرح مچھلی پانی میں پیداہوتی ہے۔پانی میں پلتی بڑھتی ہے۔اورپانی سےنکلتےہی دم توڑدیتی ہے ۔بالکل یہی حال گالیوں کاہے ۔گلی میں گالی پیداہوتی ہے۔وہیں فروغ پاتی ہے ۔جب گلی سےباہرآتی ہےتواپنےبےدم وبےجان ہونےکااعلان کردیتی ہے۔
درحقیقت اس ایک لفظ میں گالیوں کی پوری تاریخ آگئی ہے ،جس کی ابتدا گلیوں سے ہی ہوئی ہے ۔اور اس کی انتہا و عروج بھی گلیوں سے ہی جڑی ہے ۔لیلی کی گلی ہو، یا یار کی گلی،گلی تو گلی ہے۔اسی لئے بھی تو کہتے ہیں کہ ؛اپنی گلی کاکتا بھی شیر ہوتا ہے ۔گلیوں کی اپنی الگ تہذیب ہے ،الگ پہچان ہے اور الگ زباں ہے ۔یہاں پچاس فیصد ریزرویشن والی آبادی کی حکومت ہواکرتی ہے جو از آدم تا ایں دم قائم ودائم ہے ۔گلیوں میں حکومت گھرکی ملکہ کی قائم ہے۔جوزنانہ اوصاف وصفات سےمسلح ہی نہیں بلکہ اس کامالک ہواکرتی ہیں ۔کسی حکومت نے بھی ان گلیوں کواپنی حکومت میں شامل کرنے کی ہمت وجسارت اوربھول نہیں کی ہے۔ اور ایساکیوں نہ ہو؟ خیر تواسی میں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپنے وقت کا عظیم سپہ سالار بھی اپنی گلی پہونچتے ہی ہتھیار ڈال دیتا ہے اور سرنگوں ہوجاتا ہے ۔بادشاہ وقت بھی خود کو اپنی گلی میں جاتے ہی رعایا تسلیم کر لیتا ہے ۔اسی پربس نہیں بلکہ ہاں میں ہاں ملانے لگتا ہے اور در یار پر اپنی شاہی قربان ہی نہیں بلکہ نچھاور کردیتا ہے ۔ ع سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے اس لئےبھی کہ وہاں تحمل نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ گلی ہے، جہاں کسی کی بھی نہ چلی ہے، یہاں لعن ہے،طعن ہےاور تشنیع ہے، بہن بھائی دادا دادی نانا نانی اور اس سے آگے بڑھ کر مائ باپ کسی کی یہاں معافی نہیں ہے ۔ سلاست ہے،فصاحت ہے،بلاغت ہے،روانی ہے،یہاں توگالیوں کی حکمرانی ہے
ع۰۰عافیت دامن بچا کر گذر جانے میں ہے۔
حیرت واستجاب کی بات ہے کہ اس گلی کےمیدان کو بھی اب مردوں نے ہی سنبھال لیا ہے جو کافی تشویشناک ہے ۔مردطاقت کا نام ہے اور طاقت سے ہی عبارت ہے ۔گالی اپنی کمزوری کا اعلان ہے ۔اس کا مطلب صاف ہے اپنی کمزوری وکم مائیگی کا مردوں نےاعتراف کرلیا ہے،ملک کے لئے اور اس کی ترقی کے لئے یہ عمل سم قاتل ہے ۔کوئ ترقی یافتہ ملک اورترقی پذیر سماج ومہذب معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا اور نہ اس کی حمایت کرتا ہے ۔ایسے میں ہمارے لئے سوچنے،سمجھنے، غور کرنے، اور سنجیدہ ہو کر مناسب لائحہ عمل اختیار کرنے کی شدید ضرورت درپیش ہے ۔
جہاں تک مذہب اسلام کی بات ہے، یہاں تو گالیوں کے جواب میں گالی کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔بلکہ بالفاظ دیگر گالیوں پر سکوت اختیار کرنا، اور خاموش رہنا سنت رسول ص سے ثابت ہے ۔ اس تعلق سے آپ کی معیت میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا واقعہ بہت ہی معروف ہے۔آپ ص کے غار یار کو آپ کے سامنےگالی دی گئی اور برا بھلا کہا گیا ،اس پر آپ ص خاموش رہے، جوابا صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ کہا تو آپ چل دیئے، صدیق رض آپ ص کی طرف لپکے اور وجہ پوچھا تو سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہوا :اے ابوبکر جب تم خاموش تھے تو تمہاری طرف سے فرشتہ جواب دے رہا تھا اور جب تم نے شروع کیا تو شیطان آگیا تھا ۔
گالیوں کی تاریخ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی گالیاں یک طرفہ رہی ہیں وہاں شیطان کو کامیابی نہیں ملی ہے ۔خواہ یہ گالی میاں بیوی کے مابین ہو، دومردوں کے مابین ہو،دوعورتوں میں ہو، وہ دونوں ہم مذہب ہوں، ہم مشرب ہوں، ہم وطن ہوں ۔جہاں یہ گالیاں یک طرفہ ہیں، وہاں شیطان کا جادو نہیں چلا ہے ۔اسی لئے بھی سکوت اور خاموشی کو اسلام میں نجات اور کامیابی سے موسوم کیا گیا ہے ۔جہاں بولنے پر شیطانی بالادستی قائم ہوجائے وہاں چپ رہنا یہ بڑی فتح اور فتح مبین ہے۔
وقتی طور پر گالیاں سننے والے کو اپنی ناکامی محسوس ہوتی ہے دراصل یہی بڑی کامیابی ہے ۔گالیاں لعنتیں خود حدیث کی زبان میں بکنے والے کا ہی مقدر بن جاتی ہیں ۔
حدیث شریف میں ایک مسلمان جب گالیوں پہ اتر جائے تو اسے منافق کی چارعلامتوں میں سے ایک علامت سےتعبیرکیا جاتا ہے ،(بخاری ومسلم، مشکوة ص ۱۷)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں، رسول اللہ ص نے فرمایا :کبیرہ گناہوں میں ہے کہ مرد اپنے ماں باپ کو گالی دے، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا کہ کیا مرد اپنے ماں باپ کو گالی دے سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا :جی ہاں، ایک شخص دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ جوابا اسکے باپ کو گالی دیتا ہے، کبھی آدمی دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جوابا اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔(بخاری ومسلم، مشکوة، ص 418)
ان احادیث شریفہ کی روشنی میں بھی موجودہ وقت میں ہمارا مذہبی وملی فریضہ تقاضہ کرتا ہے کہ یہ گالیاں جو دراصل گلیوں کی پیدا وار ہیں، ہمیں اس سے بچنا ہی نہیں بلکہ جوابا گالی سے بھی بچنا اور بچانا ازحد ضروری ہے ۔یہی قرآن کہتا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان یہی ہے ۔
مضمون نگار:ہمایوں اقبال ندوی ارریہ ،رابطہ 9973722710
نوٹ،پورٹل میں شائع مضامین ومراسلات میں مضمون نگاروں کے ذریعہ ظاہرکی گئی آرا ان کی ذاتی ہیں- اس کے لئے ارریہ ٹائمز کسی طرح سے ذمہ دارنہیں ہے۔
nice