شاہین باغ سے شاہین باغ تک

Shaheen-Bagh

پولیس نے آ ج شاہین باغ کے احتجاجی مقام کو کورونا وائرس کے بہانے تہس نہس کردیاہے۔ آ ج اس بے نظیر احتجاج کا 101 واں دن تھا۔ آ ج ہی صبح مرادآباد کی عیدگاہ میں گزشتہ 29 جنوری سے جاری خواتین کے انتہائی کامیاب دھرنے کی جگہ پر بھی بلڈوزر چلا دیا گیا ۔ اس سے ایک دن قبل لکھنؤ کے گھنٹہ گھر اور دیوبند میں جاری جرات مندانہ خواتین کے دھرنے کو ختم کیا گیا تھا۔

یہ سب کارروائیاں کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی احتیاطی تدابیر کے نام پر کی گئی ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور اس کی مشینری سیاہ قانون کے خلاف جاری اس موثر تحریک کو ختم کرنے کا بہانا ڈھونڈ رہی تھی چونکہ اس تحریک کے نتیجہ میں پوری دنیا شہریت ترمیمی قانون کی تباہ کاریوں کی طرف متوجہ ہوئی اور اس نے شہریت کو مذہب سے مربوط کرنے کے سیاہ قانون کو مسترد کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ میں جو 160 عرضیاں داخل کی گئی ہیں ان میں ایک عرضی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی دائر کی ہے اور خود کو اس میں پارٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

شہر یت ترمیمی قانون کے ساتھ ساتھ شاہین باغ پروٹسٹ کا مسئلہ بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا اور احتجاجی خواتین سے مذاکرات کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے باضابطہ مذاکرات کار متعین کئے تھے۔ جنہوں نے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کردی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ شاہین باغ کااحتجاج پوری دنیا میں سیاہ قانون کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت بن گیا تھا ۔ اس احتجاجی تحریک کو بدنام کرنے اور اسے ختم کرنے کی کوششیں روز اول سے ہورہی تھیں اور شمال مشرقی دہلی کا فساد بھی اس تحریک سے وابستہ لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے لئے ہی برپاکیا گیا تھا ۔لیکن جان ومال کے اتنے بڑے نقصان کے باوجود لوگ خوفزدہ نہیں ہوئے اور وہ دہلی سے لکھنؤ تک پوری قوت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ شاہین باغ کی طرز پر پورے ملک میں ڈیڑھ سو سے زیادہ خواتین کے دھرنے ہوئے اور ان میں سے کئی آ ج بھی چل رہے ہیں۔شاہین باغ میں آ ج کی پولیس کارروائی کے نتیجے میں دھرنے کا سازو سامان ضرور ضائع ہو گیا ہے لیکن اس سے ان لوگوں کے حوصلے نہیں ٹوٹے ہیں جو اس ملک میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔شاہین باغ ظلم وناانصافی کے خلاف مزاحمت کی ایک تحریک ہے اور تحریکوں میں مختلف مراحل پیش آ تے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تحریک آ گے بھی جاری رہے گی ۔
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

مضمون نگار:معصوم مرادآبادی

Leave a Reply

Your email address will not be published.