آزادئ اظہار، توہین رسالت اور مسلم حکمراں

جلال الدین اسلم، نئی دہلی

خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالکؒ سے شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کے متعلق دریافت کیا اور کہا کہ عراق کے فقہا نے اس کو دُرّے لگانا تجویز کیا ہے۔ امام مالکؒ غضبناک ہوگئے اور فرمایا کہ ’’اے امیرالمومنین! اس اُمت کو زندہ رہنے کا کیا حق ہے جب اس کے رسول کو گالیاں دی جائیں۔ پس اس شخص کو قتل کردو جو رسول اللہ کو بُرا کہے اور اس کے دُرّے لگاؤ جو آپ کے صحابہ کو بُرا بھلا کہے۔‘‘ (الشفاء، جلد دوم)
مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف گزشتہ کئی دہائیوں سے مغربی ملکوں میں تنازعہ کھڑا کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ پچھلے دنوں ڈنمارک اور کئی دوسرے یوروپی ملکوں میں پیغمبر اسلام ﷺ کے انتہائی قابلِ اعتراض خاکوں کی اشاعت کا جو ایک سلسلہ شروع ہوا وہ ابھی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے اور اب ہالینڈ میں ایک بار پھر خاکوں کی اشاعت اور اس میں مقابلہ آرائی کی گھناؤنی حرکت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بوجوہ یہ کوشش مؤخر کردی گئی۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم عمران خان اور ترکی کے صدر طیب اردگان نے خاکوں کے مقابلے کرنے کے معاملے پر مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس معاملے کو اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اٹھائیں گے۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن کیا یہ معاملہ اقوام متحدہ یا اوآئی سی کے توسط سے حل ہوسکتا ہے؟ اب تک کے تجربات تو نفی ہی بیان کرتے رہے ہیں۔
اسلامی ملکوں کی سب سے بڑی تنظیم اسلامی کانفرنس کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اس کے پاس بھی شاید اسلامیانِ عالم کا دل دکھانے والوں کے پاس کاسہ بدست جانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ اس کے لیڈر بھی گرم گرم تقریریں کرتے ہیں اور آخر میں درخواست کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ سلسلہ بند کردیا جائے۔ کیا واقعتا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں میں دینی حمیت وغیرت ہی نہیں رہی، یہ اپنے اقتدار کے بھوکے ہیں اور اقتدار سے آگے انہیں کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ یعنی صُمٌّ بُکْمٌ عُمی فَہُم لایَرجِعُون کا عملی نمونہ ہیں۔ یہ تو اپنے عوام کے دلوں سے بھی ایمانی قوت اور دینی حمیت چھین لینے کے درپے ہیں۔ ان کے دائرۂ اقتدار میں کہیں سے بھی اگر اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کوئی آواز بلند ہوتی ہے تو یہ اپنے آہنی قدموں سے اسے کچل ڈالتے ہیں کہ یہی ان کی زندگی کا ملجا و ماوا بھی ہے اور یہی ان کے آقاؤں کی دلی خواہش بھی۔
پاکستان جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، اپنے وجود سے آج تک اسلامیت کے بجائے آمریت کے چنگل میں ہی تڑپتا رہا ہے، یہاں جمہوریت کی جڑیں ہمیشہ کمزور رہی ہیں اور اسلامیت مدرسوں اور مسجدوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ عام زندگی میں اسلام ایک لبادہ ہے ایک خول ہے، حقیقی اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ یہاں مسلمان تو ہیں مگر اسلام نہیں اور یہ بات تو صرف پاکستان پر ہی نہیں بلکہ مسلم دنیا کے دوسرے ملکوں پر بھی صادق آتی ہے۔ پاکستان میں کم از کم عوام میں تو دینی غیرت کا اظہار گاہے بہ گاہے یا موقع بہ موقع ہوتا ہی رہا ہے جیسے کہ پچھلے برس توہین رسالت قانون میں تبدیلی پر تحریک لبیک یا رسول اللہ نے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرکے زندگی کا ثبوت دیا تھا۔ اب پھر جب ہالینڈ میں ایک بار پھر گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی گئی تو تحریک لبیک نے معروف صوفی بزرگ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج کے مزار سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرکے بتا اور جتا دیا کہ اُمت محمدیہ میں اب بھی دینی حمیت اور غیرت باقی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں یہ پہلا مارچ تھا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
شاطرانِ مغرب کو معلوم ہے کہ اسلام میں شاتمِ رسول کی سزا قتل ہے، اس کے باوجود بلاخوف و خطر بار بار گستاخانہ عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شاید انہیں معلوم ہے اور یقیناًمعلوم ہے کہ اب ملت اسلامیہ میں کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں، تبھی تو جس کا دل چاہتا ہے گستاخ کارٹون بنادیتا ہے، توہین آمیز فلم بنادیتا ہے، یا کتاب لکھ دیتا ہے۔ اگر ان کو یقین ہو کہ پونے دو ارب مسلمانوں میں ایک بھی صلاح الدین ایوبی ہے جو ایک ایسے ہی واقعہ پر فلسطین تک ان سے چھین سکتا ہے تو ان گستاخوں کو ایسا کرنا تو دور کی بات سوچنے سے بھی پسینہ آجائے۔ بہرکیف اُمت مسلمہ نے اپنے بھرپور احتجاج کے بعد یہ ثابت کردیا ہے کہ توہین رسالت کوئی عام جرم نہیں ہے بلکہ یہ پوری اُمت مسلمہ کے لیے دین و ایمان کا مسئلہ ہے اور مسلمان خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل سے ہو، وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں، دنیا کے کسی بھی خطے کے رہائشی ہوں، مذہبی طور پر ان کا کوئی بھی مسلک ہو، توہین رسالت کے ایشو پر سب ہم آواز ہیں اور اس جرم قبیح پر سب کا موقف ایک ہے۔
شرانگیزی کی انتہا تو یہ ہے کہ یوروپ اور امریکہ وغیرہ اس گستاخانہ عمل کو آزادئ اظہار قرار دیتے ہیں، یہی ہے اس مسئلے کی اصل جڑ۔ جب تک اس کا حل نہیں نکلے گا تب تک کچھ نہیں ہوگا کیونکہ یہ آزادئ اظہار صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
یہود ونصاریٰ کو قرآن نے مسلمانوں کا کھلا دشمن قرار دیا ہے، یہ ازلی دشمن ہیں، منافقت ان کی سرشت میں ہے، یہ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے اِلّا یہ کہ خود مسلمان ان جیسے ہوجائیں۔ ان کی منافقت ہی تو ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران ہلاک ہونے والوں میں یہودی بھی تھے، مسلمان بھی، عیسائی بھی، بدھسٹ بھی، ہندو بھی، سکھ بھی اور کمیونسٹ بھی لیکن نازی افواج کے ہاتھوں صرف یہودیوں کے قتل عام کو ہی ’ہولوکاسٹ‘ کا نام دیا گیا۔ ہولوکاسٹ کا مطلب و مفہوم تھا خدا کی راہ میں کی جانے والی قربانی۔ ایسی قربانی جسے مکمل طور پر جلا دیا جائے۔ یہ اصطلاح بہت دنوں تک تمام انسانی قتل عام کے لیے استعمال ہوتی رہی لیکن 1960 سے اسے صرف یہودیوں کے قتل عام کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ اور اب ہولوکاسٹ کا مطلب ہے ’جنگ عظیم دوم میں نازی افواج کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودیوں کا قتل عام‘ اور اس کو ماننا ہر آدمی کے لیے فرض قرار دے دیا گیا۔ مغرب میں اب اس کو نہ ماننا اس کے خلاف باتیں کرنا قابل تعزیر جرم ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مغرب میں انبیاء جیسی مقدس ترین ہستیوں کے خلاف بولنا، ان کو نہ ماننا، ان کی توہین کے لیے کارٹون تک بنانا قابل تعزیر جرم نہیں بلکہ اس کو آزادئ اظہار کہا جاتا ہے۔ لیکن ہولوکاسٹ کے خلاف بولنا آزادی اظہار نہیں جرم ہے۔ نہ صرف ہولوکاسٹ کے خلاف بولنا بلکہ یہودیوں کے خلاف بولنا، ان کے خلاف نفرت پھیلانے کے جرم میں آتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انبیاء کے گستاخوں کو سرکاری تحفظ دیا جاتا ہے جبکہ ہولوکاسٹ اور یہود کے خلاف بولنے والوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ سب یہودیوں نے کرایا کیسے؟ اس ضمن میں یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت پورے یوروپ میں 60 لاکھ یہودی نہیں تھے تو مارے کیسے گئے؟
اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی آبادی 6 ارب 15 کروڑ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد کوئی ایک ارب 60 کروڑ ہے۔ 2 کروڑ 97 لاکھ کلو میٹر رقبے پر پھیلے 57 ملکوں میں مسلمان حکمراں دنیا کے 70 فیصد وسائل کے مالک ہیں۔ صرف 8 بڑے اسلامی ملکوں کے پاس 35 لاکھ فوج ہے۔ ایک خدا، ایک رسول ایک قرآن پر بھی سب کا ایمان ہے۔ اگر کوئی چیز نہیں ہے تو صرف اتحاد نہیں ہے۔ یہودیوں کے برخلاف ہر ایک نے اپنے مفاد کے لیے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنارکھی ہے جس میں کوئی بادشاہ ہے، کوئی ڈکٹیٹر اور کوئی صدر، وزیر اعظم۔ ان سب کو عالم اسلام اور اُمت کے مفادات کے بجائے اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ اگر صرف ڈیڑھ کروڑ یہودیوں نے دنیا کی معیشت کو قبضے میں لے کر ہولوکاسٹ کے واقعہ کو مقدس بنادیا ہے جسے دنیا میں کوئی بھی درست نہیں مانتا جبکہ ہم ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان مل کر بھی اس عظیم ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو نہیں رکواسکتے۔ جس کو مسلمانوں کے علاوہ بھی متفقہ طور پر دنیا کا سب سے بڑا انسان اور عظیم ہستی قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہم یہودیوں کی طرح دنیا کی معیشت پر قبضہ نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنے وسائل تو اپنی مرضی سے خرچ کرسکتے ہیں۔ آج اگر عالم اسلام مل کر کسی ایک فورم، چلو خلافت نہ سہی، او آئی سی کے فورم سے ہی سہی یہ اعلان کردے کہ جب تک مغرب نے جس طرح کا قانون ہولوکاسٹ کے لیے بنایا ہے اسی طرح کا قانون انبیاء کرام کے ناموس کے تحفظ کے لیے نہیں بناتا تب تک عالم اسلام کی ان سے معاشی سرگرمیاں معطل اور سفارتی روابط منقطع رہیں گے، تو مغرب ایک دن مجبور ہوجائے گا قانون سازی کے لیے۔ لیکن کیا یہ عملاً ممکن ہے؟ بالکل ممکن ہے۔ اگر یہ صرف ڈیڑھ کروڑ یہودی کرسکتے ہیں تو ڈیڑھ ارب مسلمان کیوں نہیں؟ صرف مسلمان حکمرانوں کو اپنے اپنے مفادات کو قربان کرنا ہوگا۔ یاد رکھیں، اگر اس مسئلے کو اقوام متحدہ یا اوآئی سی حل نہیں کرتیں، اور اہل مغرب کی گستاخیاں اسی طرح جاری رہتی ہیں تو بعید نہیں کہ اس کی چنگاریاں تیسری عالمی جنگ کا سبب بن جائیں۔ شاتمِ رسول کی سزا اسلام میں کیا ہے مضمون کی اوائل سطروں میں واضح کردی گئی ہے۔ جب تک اس پر عمل نہیں ہوگا اظہار رائے کی آزادی کا یہ مذموم سلسلہ بند نہیں ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *