اے باپ!ہم شرمندہ ہیں!

nasir

محرم الحرام ۰۴۴۱ھ کی پندرہ تاریخ تھی،میں اپنی درسگاہ میں بیٹھابچوں کوپڑھارہاتھا،دورانِ سبق کسی سے بات کرنااخلاقاًبھی غلط ہے،ایک صاحب حاضرہوئے، بجھابجھاچہرہ، اڑی اڑی رنگت،فکراوراضطراب کی پرچھائیاں ان کے چہرے بشرے سے ہویدا،سلام کرکے ہاتھ بڑھادیا، میں نے سلام کاجواب تودے دیامگرسبق کی وجہ سے ناگواری کے باوجودبھی مصافحہ کیااورپڑھانے میں مشغول ہوگیا،نوواردنے اجازت طلب اندازمیں کہاکہ میں دوباتیں کرناچاہتاہوں؟میں نے کہاسبق کے بعدکرلینااورجلدی ہوتو دفترچلے جائیے و ہاں حضرت ناظم صاحب بھی ہیں اور دیگر حضرات بھی موجودہیں اُن سے بات کرلیجئے!اُنہوں نے کہا:صرف ایک منٹ میں اپنی بات پوری کرلوں گا،میں نے بادلِ ناخواستہ کہاکہ کہئے:انہوں نے جب کہناشروع کیاتوحیرت واستعجاب کی وجہ سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
”میں رام پورمنہاران کارہنے والاہوں،سرکاری نوکری ہے،میں نے ایک دیندار خاتون سے شادی کی،زندگی میں بہت پیسے کمائے،اچھاگھربنایا،رام پورمیں میرے کئی پلاٹ ہیں،لاکھوں روپے میرے بینک اکاؤنٹ میں جمع ہیں،مالی اعتبارسے میں اللہ کے فضل سے بہت خوش حال ہوں، اللہ نے ایک بیٹابھی دیا،اس کی معیاری عصری تعلیم پرہم دونوں نے خوب روپے خرچ کئے،تعلیم مکمل ہوگئی توایک اچھے گھرانے سے شادی کردی،میرے بیٹے نے جوہم دونوں کی آنکھ کاتارا، ہمارے بڑھاپے کاسہارااور ہمارے جگرکاٹکڑاتھا،اس نے اپنی اہلیہ کولے کرالگ گھربنالیا اورہم دونوں گویاجیتے جی مرگئے،میری بیوی اکلوتے بیٹے کی اِس جدائی کوبرداشت نہ کرسکی اورملک عدم کوسدھار گئی،میں دنیامیں اکیلادھکے کھانے کے لئے رہ گیا،اب میری حالت یہ ہے کہ میں پورادن سہارنپورمیں سرکاری نوکری کرتاہوں، رات تھک ہارکرجب گھرجاتاہوں تواتنا بڑاگھرمجھے کاٹ کھانے کودوڑتاہے، میرابیٹاکبھی مجھ سے ملنے نہیں آتا،فون نہیں کرتا،خیرخیریت نہیں بتاتا،گویامیں اس کاباپ ہوں ہی نہیں؟
نوورادکی باتیں بڑی جگرپاش اوردل خراش تھیں،اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسوتیزی سے رواں دواں تھے،بات بھی مسلسل جاری وساری تھی، قریب تھاکہ میں بھی اپنی غمناک کیفیت اورنمناک حالت پرقابونہ پاسکوں اوررونے میں اس کاساتھ دینے لگوں،مگرمیں نے خودکوسنبھالا اورپوچھا: نماز روزے کے پابندہو؟نوواردنے کہا:
”بالکل جناب! میں کوئی نمازنہیں چھوڑتااورنمازچھوڑنے کاکوئی حیلہ اوربہانابھی نہیں ہے، کھاناہوٹل سے کھاتاہوں،ناشتہ جہاں موقع مل گیاکرلیا،نہیں ملانہیں کیا،کوئی شوق نہیں،کوئی ذوق نہیں اورسچ پوچھوتوایسی عبرتناک زندگی والاصرف اورصرف موت کاہی منتظرہوتاہے،اس لئے میں ذکرواذکاربھی کرتاہوں،قاری عاشق الہٰی اسعدیؒ میرے پیرومرشدتھے“۔
میں نے کہا:یہ اس المناک کہانی سنانے کاکیامقصدہے؟بولے:
”میں صرف یہ چاہتاہوں کہ میرابیٹابھلے ہی میرے پاس نہ رہے لیکن بول چال توبندنہ رکھے،آناجاناتوجاری رکھے،یہ اتنی بڑی جائداد،کئی عددپلاٹ،بینک بیلنس اِن سب کاوارث وہی توہے، کم ازکم کبھی کبھی اپناچہرہ دکھادے تومیرے بے قراردل کوقرارآجائے،بس میں یہ چاہتاہوں اورایک مسئلہ معلوم کرناچاہتاہوں کہ میں اپنی طرف سے کہیں مسجدبنوادوں تاکہ کم ازکم میرے دل کاکچھ نہ کچھ بوجھ توہلکاہوگا،کل جب اللہ کے سامنے حاضری ہوگی تومیری بنوائی ہوئی مسجدکے بدلے جنت میں اپناگھر پاکر میں اپنی مرحومہ کے ساتھ آخرت میں ہی مزے اڑاسکوں گا؟۔
باتیں تواوربھی ہیں جولکھی جاسکتی ہیں اورعبرت آمیزوسبق آموزبھی ہیں لیکن مقصداس واقعہ سے یہ بتاناہے کہ خدارااپنی اولادکودین کی کم ازکم اتنی تعلیم تودلائیں کہ وہ ماں باپ کے حقوق کوپہچان سکے۔
اِس شخص کی اِس دردناک کہانی سن کرمجھے چودہ سوسال پہلے کاایک واقعہ یادآگیا۔

ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے والد نے میرا سب مال لے لیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ۔ اسی وقت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ جب اس لڑکے کا والد آجائے تو آپ ﷺ اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں اورخود اُس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا۔ جب وہ نوجوان اپنے والد کو لے کر آیا۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے،کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں؟ والد نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ اسی سے پوچھ لیں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہیں خرچ کرتا ہوں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پس حقیقت معلوم ہو گئی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کے والد سے دریافت فرمایا وہ کلمات کیا ہیں جو تم نے دل میں کہے اور تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا؟اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یعنی جو بات کانوں نے سنی اس کی آپ کو اطلاع ہو گئی؟ پھر اس نے کہا کہ میں نے چند اشعار دل میں پڑھے تھے نبی کریم ﷺنے فرمایا وہ اشعار ہمیں بھی بتاؤ۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے دل میں یہ کہا تھا۔
”میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے رات نہ گزاری مگر سخت بیداری اور بیقراری کے عالم میں۔ مگر ایسے جیسے کہ بیماری تمہیں نہیں مجھے لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے تمام شب روتے ہوئے گزار دیتا۔ میرادل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، اس کے باوجود کہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی بنالیا، گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو۔ اگر تم سے میرا حق ادا نہیں ہو سکتا تو کم از کم اتنا ہی کر لیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔ تو نے مجھے کم از کم پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا۔ میرے ہی مال میں مجھ سے بخل سے کام نہ لیا ہوتا“۔
نبی کریم ﷺنے جب یہ سنا تو بیٹے سے فرمایا ”انت و مالک لا بیک ”کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔(معارف القرآن)
حضرت مولانا عبدالشکور دَین پوری ؒ کا ایک سچا واقعہ یادآرہاہے،فرمایا:
”میں چیچہ وطنی سے تقریر کر کے جارہاتھا،کچھ ساتھی ساتھ تھے، ایک آدمی کو دیکھا چار پائی پر بیٹھا تھا، مکھیاں بھنبھنارہی تھیں، عجیب حالت تھی؛ چہرہ زرد تھا، گردوغبارسے اٹاہوا، پیلے دانت، ہڈیوں کا ڈھانچہ، کمزور سانچہ، اس کے پاؤں پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا، اس کا کوئی ہمدرد نہ غم خوار، میں اُس کے قریب گیا تو کہنے لگا ”مولانا! اِدھر تشریف لائیں!۔ اُس نے کہا مجھے عبرت سے دیکھو، ابھی آپ کی تقریر کی آواز یہاں آرہی تھی اور میں سن رھا تھا، پھرکہنے لگا یہاں میرا مکان تھا،دوکان تھی، کاروبار تھا،میں ایک شیر جیسا بہادر،تندرست وتواناانسان تھا، لیکن اب بھیک مانگتا ہوں اور اب کوئی بھیک بھی نہیں دیتا، بلکہ مجھ پر لوگ لعنت کرتے ہیں، عبرت کی بات بتارہا ہوں، اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کافی دیر تک روتا رہا۔
کہنے لگا ایک رات اپنے بدکردار غنڈے دوستوں کے ساتھ سینما دیکھنے گیا واپسی پر گھر پہنچ کر ماں سے کھانا مانگا، تو ماں نے شرم دلائی کہ ساری رات آوارہ گردی کرتا ہے کبھی پولیس پکڑتی ہے، نہ تمہارا باپ ایسا تھا نہ دادا اور نہ یہ تیری ماں ایسی ہے، تو کن غنڈوں میں پھنس گیا ہے،اس نے اپنی ممتا کا غصہ اتارا مجھ پر۔ بس مجھے غصہ آیا اور جوتا لے کر ماں کو مارنے لگا، اس میں دو جوتے اس کے منہ پر لگے، ماں کے منہ سے اتنی آواز سنی، اے عرش والے! اسی لیے بچہ دیا تھا کہ آج میں جوتے کھا رہی ہوں، اے رب مجھے اپنے پاس بلالے، اب مزید جوتے نہیں کھا سکتی، اے رب جس نے ماں کے منہ پر جوتے مارے اس کتے کو تو دنیا اور آخرت میں برباد کردے، پھرکہنے لگا اس وقت تومیں ماں کی اِن باتوں کو سن کر سو گیا،اسی رات میرے پاؤں میں ایک درد اٹھا، پاؤں لرزنے لگا، صبح تک پاؤں سوج کر بہت موٹا ہوگیا، ڈاکٹروں کو دکھایا لاہور گیا، ملتان نشتر ہسپتال گیا،آخر پاؤں کاٹنا پڑا اور پھر مسلسل پاؤں کٹتے گئے…… کٹتے گئے!
پھراس نے اپنے پاؤں کے حصے سے کپڑا اٹھایا بہت پیپ بہہ رہی تھی، کہنے لگا یہ زخم نہیں ماں کی بدعا ہے،اللہ کا قہر ہوا مجھ پر، ماں تو رو رو کر ایک ہفتے میں چل بسی، جائداد گئی، مال گیا، بیوی گئی، بیٹے گئے، 4 سال سے یہاں پڑا ہوں، پیپ مسلسل بہہ رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہر وقت کتے کاٹ رہے ہیں، نیند نہیں آتی، گزرنے والے کہتے ہیں یہ وہ لعنتی ہے جس نے اپنی ماں کو جوتوں سے مارا ہے، کتے کی طرح میرے سامنے روٹی پھینکنے ہیں، بیٹوں کو بلاتا ہوں تونہیں آتے، اباابا نہیں کہتے، کہنے لگا مولانا مجھ سے میرا روٹھا رب راضی کرادو، ماں کے ایک لفظ نے اللہ کے قہر سے مجھے برباد کردیا۔ اتنا کہہ کر وہ گر پڑا اور روتا رہا، پھر اس نے آنکھ نہ کھولی، مولانا فرماتے ہیں: خدا کی قسم یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔(خطبات دین پوری)

ہمارے بڑوں کاکہناہے اوربڑے ہمیشہ تجربہ کی کہتے ہیں:
اقتربوا من ابنائکم…… وشاوروھم……وحاوروھم……واکسبوھم…… قبل ان تخسروھم……!اپنے بچوں کے قریب رہا کرو ……ان سے مشورے کیا کرو……تبادلہ خیال کیا کرو……اُن کے دل جیت لو……قبل اس کے کہ تم انہیں ہمیشہ کے لئے کھو دو……
والدین کی سب سے اول اور بڑی ذمے داری، بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت ہوتی ہے۔ بچپن اور لڑکپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا دور ہوتا ہے۔
اس وقت بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں۔ بچے انہی کو اپنا محسن سمجھتے ہیں جو انہیں اپنے قریب رکھتے ہیں، ان سے پیار کرتے ہیں۔
بہترین تربیت جو قربت وانسیت سے ممکن ہے، ڈانٹ ڈپٹ اور مار دھاڑ سے ہرگز ویسی ممکن ہی نہیں۔
اسلام میں والدین کابہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے،”اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیاکہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔رشتہ داروں، یتیموں،مسکینوں اورلوگوں سے (ہمیشہ)اچھی بات کہو۔“ (سورۃ البقرہ)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ ”اورآپ کے پروردگار کافرمان ہے کہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کیاکرو،اگر تمہارے سامنے اِن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“تک نہ کہواور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو اور اپنے بازو نہایت عاجزی اورنیازمندی سے ان کے سامنے جھکادو اور(ان کے لئے یوں دعائے رحمت کرو) اے میرے پروردگار!تواِن پر(اس طرح) رحم فرما، جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں (رحمت وشفقت سے) پالا تھا“۔(سورہ بنی اسرائیل)
اللہ تعالیٰ نے ان آیات مبارکہ میں اپنی عبادت کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت واطاعت انتہائی ضروری ہے حتیٰ کہ والدین اولاد پر ظلم وزیادتی بھی کریں تب بھی اولاد کو انہیں جواب دینے کی اجازت نہیں،جھڑکناتو درکنار،ان کے سامنے ”اُف“تک کہنے کی بھی اجازت نہیں۔
اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسولﷺ کی نافرمانی کے سوا والدین کے ہر حکم کی تعمیل کریں۔ ان کی رائے کو ترجیح دیں۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے محبت و احترام سے پیش آئیں، اپنی مصروفیات میں سے مناسب و قت ان کے لیے خاص کردیں۔ان کی بھر پور خدمت کریں اور ان کی وفات کے بعدان کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت ورحمت کرتے رہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لیے، اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے لیے مغفرت وبخشش کی دعامانگتے ہیں۔جس کاقرآن پاک نے اس طرح ذکرکیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو (بخش دے)اور سب مسلمانوں کو(بخش دے)، جس دن حساب قائم ہوگا“۔(سورہ ابراہیم)
ماں باپ کے انتقال کے بعدبھی ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جس کی کئی صورتوں میں سے ایک دعائے مغفرت کرنابھی شامل ہے۔ جس سے ان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں بلند فرما دیتا ہے تو وہ بندہ عرض کرتا ہے کہ”اے میرے رب! یہ درجہ مجھے کہاں سے ملا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے کہ،”تیری اولاد کی دعائے مغفرت کی بدولت (تْجھے یہ بلند درجہ دیا گیا ہے)۔“(مسائل اربعین)

ایک حدیث شریف میں ہے کہ ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت کرناان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں ”رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال کاسلسلہ ختم ہو جاتا ہے،لیکن تین چیزوں کا نفع اس کو(مرنے کے بعدبھی) پہنچتا رہتا ہے۔(۱) صدقہ جاریہ(۲)ایسا علم جس سے لوگ نفع حاصل کرتے ہوں (۳)نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کرتی ہو۔
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ”جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کے چہرے کی طرف رحمت (اورمحبت) سے ایک نظر دیکھ لے تو اللہ تعالیٰ (اس کے نامہ اعمال میں) ایک حج مقبول کا ثواب لکھ دیتا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا،اگر وہ ہر روز سو بار دیکھے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ سب سے بڑا ہے اور(اس کی ذات) بہت پاک ہے،(یعنی اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں،وہ سوحج کاثواب بھی عطافرمائے گا۔“(مشکوٰۃ،بیہقی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ،”جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے اور اس کے رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور (اپنے رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرے۔“
ایک اور اہم بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اولاد پر اپنے بیوی بچوں کی طرح اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت اور کفالت اور ان کی ضروریاتِ زندگی (کھاناپینا،لباس، علاج)کو پورا کرنا بھی اولادپر فرض ہے،اس کے ساتھ ان کی ضروریات کے مطابق مخصوص رقم ہرمہینے ان کوپیش کی جائے تا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کر سکیں۔
حضور سید عالم ﷺ نے والدین کی خدمت و اطاعت کو جہاد ایسی عظیم عبادت وسعادت پر بھی ترجیح دی حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺکے پاس جہاد میں شریک ہونے کی غرض سے حاضر ہواتو نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے ماں با پ زندہ ہیں؟“اس نے کہا،”جی ہاں، زندہ ہیں۔“ آپ ﷺنے فرمایا،”جاؤ اور اپنے والدین کی خدمت کرو، یہی تمہار اجہاد ہے۔“(سنن ابن ماجہ،مشکوٰہ المصابیح)
اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اوراچھانیکی کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو۔
والدین کے حقوق کی ادایئگی گویا اللہ کی تابعداری ہے، اس لحاظ سے ان کی خدمت گویااللہ تعالیٰ کی خدمت ہے۔ اللہ کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں مضمرہے۔
حضرت ابو ہریرہ ﷺ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،”وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا…… وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا ……وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا……عرض کیا،کون یارسول اللہ ﷺ؟آپ ﷺنے فرمایا:”جس نے اپنے ماں باپ میں دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور پھر (ان کی خدمت کر کے) دخولِ جنت کا حق دار نہ بن سکا۔“(مسلم، مشکوٰۃ)
ماں باپ کے نافرمان کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتااور موت سے پہلے ہی اسے دنیا میں ذلت و رسوائی اور اپنے کئے کی سزاملتی ہے۔والدین کے حقوق کی ادائیگی کواس طرح ممکن بنایاجاسکتاہے کہ والدین کے ہر نیک حکم کی تعمیل کی جائے۔ ان کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کی جائے۔ ان کے آرام وسکون اور خوشیوں کا خیال رکھا جائے۔والدین کا تذکرہ ہمیشہ اچھے الفاظ میں کیاجائے۔والدین کے رشتہ داروں اور دوستوں کااحترام کیاجائے۔والدین کی وفات کے بعد ان کیلئے دعائے مغفرت ورحمت کرتا رہے اور ایصالِ ثواب کا تحفہ بھیجتا رہے تا کہ وصال کے بعدبھی ان کے اعمال میں نیکیوں کا اضافہ ہوتا رہے۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ”بہترین نیکی یہ (بھی) ہے کہ ماں باپ کے تعلق داروں کے ساتھ اچھا اور نیک سلوک کیا جائے۔“
اسی طرح والدین خاص کروالدکوچاہئے کہ اپنی اولادسے پیاراورشفقت سے پیش آئے،ان کے ساتھ ہروقت سخت اوردرشت لہجہ اوررویہ نہ اپنائے،زندگی کے ہرموڑاورہرموقع ہرسیرت النبی کوپیش نظررکھے۔
آپﷺ نے بچوں کے بچپنے کا ہر لحاظ سے خیال رکھا۔ اپنی تمام تر رفعت شان کے باوجود ان کے ساتھ کھیلے بھی اور کبھی ان پر سختی نہیں فرمائی۔
اپنے پیارے نواسوں سے آپﷺ کی محبت و شفقت کے کئی واقعات ہم سنتے پڑھتے رہتے ہیں کہ کیسے وہ عین نماز کی حالت میں بھی لاڈ سے آپ ﷺ پر سوار ہوجاتے تھے اور آپﷺ ناراض تو کیا ہوتے، ان کے لیے سجدے کو طویل فرما لیتے۔
ایک بار آپﷺ حضرت حسنؓ کو چوم رہے تھے۔ ایک دیہاتی نے اعتراض کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا توآپﷺ نے فرمایا:
اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں؟
اسی طرح ایک موقع پر جب ایک صحابی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ جو شخص رحم نہیں کرتا، اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔
اگرہم رسول اللہ ﷺ کے اسوہئ حسنہ کی روشنی میں اپنے سلوک کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ بیگانے جیسا سلوک کرتے ہیں؟
کسی صاحب نے صحیح لکھاہے کہ باپ کی درشت مزاجی کی وجہ سے بچہ پڑوسی انکل کے زیادہ قریب، باپ سے دور ہوتا ہے……بات بات پہ مارنا، چلانا، برا بھلا کہنا بچوں کو نہ صرف ڈھیٹ بنا دیتا ہے بلکہ ان کو ماں باپ سے دور بھی کر دیتا ہے……پھرہوتا یہ ہے کہ بچے اس جذباتی خلا کو باہر والوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ……باہر پھرتے سفاک درندے ایسے ہی معصوموں کا شکار کرنے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں ……سو وہ انہیں جھوٹی محبت کے جال میں پھانس کر ان کا جذباتی و جنسی استحصال تک کر بیٹھتے ہیں۔

گھر میں خود بچے سے متعلق امور میں بھی اس سے کوئی مشورہ نہیں ہوتا، نہ اس سے رائے لی جاتی ہے اور نہ اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے…… ہر وقت، ہر بات میں بس اپنی مرضی چلائی بلکہ باقاعدہ ٹھونسی اورتھوپی جاتی ہے……آہستہ آہستہ والدین اور بچوں کے درمیان ایک ایسی اجنبیت کی دیوار کھڑی ہونے لگتی ہے کہ پھر بچہ کسی جذباتی کشمکش کا شکار ہو جائے، اس کے ساتھ کچھ غلط ہونے لگے تو وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بات والدین سے شیئر نہیں کر پاتا…… اور یوں یہ صورت حال کبھی خدانخواستہ ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔

یاد رکھئے ……انگلی پکڑ کر چلانے والے ہاتھ جب ہاتھ چھوڑ دیں تو پھر جانے کون کون انگلیاں پکڑتا ہے اور کس کس سمت لے جاتا ہے……اپنے احساسات کو جھنجھوڑئیے اپنی غفلت کو دور کیجیے…… مستقبل کے اِن ہونہار نونہالوں کو اپنے سے قریب کیجیے، ان سے مشورے کیجیے، انہیں اہمیت کا احساس دلائیے…… گاہے ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیجیے اور ان کے دل جیت لیجیے…… قبل اس کے کہ آپ انہیں ہمیشہ کے لئے کھو دیں!
جہاں تک بات ماں کی محبت کی ہے تو اس بابت تو تب سے لکھا جارہا ہے جب سے حضرت انسان نے لکھنا سیکھا تھا پر باپ ایک ایسی ذات ہے جس کی بابت شاید باپ نے بھی کبھی کھل کر نہیں لکھا اور بھلا لکھ بھی کیسے سکتا ہے کہ باپ کی محبت کا ہر رنگ نرالا اور مختلف ہے، ماں کی محبت تو بچے کی پیدائش سے لیکر اسکی آخری عمر تک ایک سی ہی رہتی ہے یعنی اپنے بچے کی ہر برائی کو پس پردہ ڈال کر اسے چاہتے رہنا۔
بچپن میں بچہ اگر مٹی کھائے تو اس پر پردہ ڈالتی ہے اور باپ سے بچاتی ہے، نوجوانی میں بچے کی پڑھائی کا نتیجہ آئے تو اس رپورٹ کارڈ کو باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے، جوانی میں بچے کا دیر سے گھر آنا باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے جیسے بچہ بڑا اور اسکے ” جرائم ” بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے ماں اپنے پردے کا دامن پھیلاتی چلی جاتی ہے۔
اسکے برعکس ”باپ“ایک ایسی ہستی ہے جو اپنی اولاد کو بے پناہ چاہنے کے باوجود اس پر صرف اسلئے ہاتھ اٹھاتا ہے کہ کہیں بچہ خود کو بڑے نقصان میں مبتلا نہ کر بیٹھے، اسکی پڑھائی پر سختی برتتا ہے کہ کہیں اس کا بچہ کم علم ہونے کے باعث کسی دوسرے کا محتاج نہ بن کر رہ جائے، بچے کا رات دیر سے گھر آنا اسلئے کھٹکتا ہے کہ کہیں کسی بری لت میں مبتلا ہوکر بچہ اپنی صحت اور مستقبل کو خراب نہ کر بیٹھے۔
یعنی بچے کی پیدائش سے لیکر قبر تک باپ کی زندگی کا محور اس کا بچہ اور اسکا مستقبل ہی رہتا ہے۔ جہاں ماں کی محبت اسکی آنکھوں سے اور عمل سے ہر وقت عیاں ہوتی ہے وہیں باپ کی محبت کا خزانہ سات پردوں میں چھپا رہتا ہے۔ غصہ، پابندیاں، ڈانٹ، مار، سختی یہ سب وہ پردے ہیں جن میں باپ اپنی محبتوں کو چھپا کر رکھتا ہے کہ بھلے اسکی اولاد اسے غلط سمجھے پر وہ یہ سب پردے قائم رکھتا ہے کہ اسکی اولاد انہی پردوں کی بدولت کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتی ہے۔
باپ جب اپنی اولادپرجائزغصہ کرتاہے،مناسب سختیاں کرتاہے تواولاداپنے باپ کو دنیا کا سب سے بڑا ظالم تصورکرتی ہے جونہ تو دوستوں کے ساتھ رات گئے تک بیٹھنے دیتا ہے اور نہ ہی جیب خرچ اتنا زیادہ دیتا ہے کہاولاد فضول عیاشیاں کرسکے۔

mufti-nasir

باپ کی محبت سمندرکی خاموش لہروں کے مانندہے جواندراندرپورے شوراورلہروں کے ساتھ بہتی ہے لیکن اوپروالوں کواحساس نہیں ہوپاتا،ایسانہیں ہے کہ باپ کارنگ گورانہیں تھابلکہ جوانی میں وہ جوان،کڑیل،بانکااورسجیلاشخص تھالیکن اولاکے ہوتے ہی باپ نے اپنے آپ کومشق ستم بنالیا،دن ورات جانوروں کی طرح محنت ومشقت کرکے اپنے بچوں کوراحت ونعمت دینے کے لئے فکرمند ہوتاگیا،جوں جوں بچے بڑے ہوتے گئے باپ بوڑھاہوتاگیاتاآنکہ ایک وقت وہ بھی آیاجب باپ کامیوہئ عنفوان شباب پژمردہ ہوگیا،اس کاگلستانِ عِذارِنودمیدہ پستہ ہوگیا،اُس کے گورے رنگ پرکالارنگ غالب آگیا،اس کے نرم وملائم ہاتھ اورہتھیلیاں کھردری اورسخت ہوگئیں، اس کی کشادہ پیشانی پرسلوٹیں نمودارہوگئیں،اس کے پیروں کی کھال موٹی ہوگئی،اس کی ایڑیاں زیادہ محنت ومشقت کی وجہ سے پھٹ گئیں،اس کااپناپیٹ اندرکی طرف دھنس گیا،اس کے مضبوط بازوشبانہ روزمحنت ومشقت کے باعث تھک گئے،اس نے کھانے کی روٹین ختم کردی محض بچوں کے لئے،اس نے روکھاسوکھا کھایا صرف اپنے بچوں کے لئے،اس نے کئی کئی کلومیٹرپیدل سفرکیاصرف چندپیسے بچانے کے لئے تاکہ اس کی اولادکسی کی دست نگرنہ ہونے پائے،اولادکی فرمائشیں پوری کرنے کے لئے بسااوقات اس نے مہینہ میں کئی کئی باراپناخون بیج دیا،اولادکی خاطرفاقے کرلئے،اولاکی خاطروہ ذلت اورخفت بھی برداشت کرلی جوشایدشادی سے پہلے کبھی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔شاعر نے بالکل صحیح ترجمانی کی ہے ؎

ہر اک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر سوائے میرے وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے!
وہ لوٹتا ہے کہیں رات کو دیر گئے، دن بھر
وجود اس کا پسینہ میں ڈھل کر بہتا ہے!
گِلے رہتے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریباں سے
یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے!
پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
مگر کھلونے میرے سب وہ خرید کے لاتا ہے!
وہ مجھے سوئے ہوئے دیکھتا رہتا ہے جی بھر کے
نجانے کیا کیا سوچ کر وہ مسکراتا رہتا ہے!
میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے!
لیکن یہی اولادجوان ہوکرجب خود”باپ“ کے مرتبہ پرفائزہوتی ہے اوراپنے بچپن کے ساتھیوں اوردوستوں کو نشے،جوے،سٹے اور دیگر خرافات میں مبتلا دیکھتی ہے توتشکرکے آنسواس کی آنکھوں میں تیرنے لگتے ہیں اورتعریف کے جملے اس کی زبان پرلرزنے لگتے ہیں کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ہمارے والد نے ہم پر سختیاں برتیں جس کی بدولت آج کسی بھی طرح کے نشے اوربری لت سے خود کو بچائے رکھا ہے، اور آج ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں کہ اپنے والدین کا سر فخر سے بلند رکھ سکیں۔
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا اِک فرشتہ باپ کے روپ میں
پر کیا آپکو معلوم ہے کہ باپ سانسیں لیتے ہوئے جیتے جی بھی مر جاتے ہیں، جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا اور والد کا اختیار گھٹتا جاتا ہے ویسے ویسے ہی باپ ”مرنا“ شروع ہوجاتا ہے، جب بچہ طاقتور جوان ہونے لگتا ہے تو باپ کا ہاتھ بعض اوقات اس خوف سے بھی اٹھنے سے رک جاتا ہے کہ کہیں بیٹے نے بھی پلٹ کر جواب دے دیا تو اِس قیامت کو میں کیسے سہہ سکوں گا؟
جب بچے اپنے فیصلے خود لینے لگیں اور فیصلے لینے کے بعد باپ کو آگاہ کر کے ”حجت“ پوری کی جانے لگے تو بوڑھا شخص تو زندہ رہتا ہے پر اسکے اندر کا ”باپ“ مرنا شروع ہوجاتا ہے۔
باپ سچ بات بتاتے ہوئے گھبراتا ہے
اسکو یہ خوف کہ بیٹا کہیں ناراض نہ ہو
باپ اس وقت تک زندہ ہے جب تک اولاد پر اسکا حق قائم ہے، جس اولاد سے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر اسے تھپڑ بھی مارا، اولاد کے آنسو بھلے کلیجہ چیر رہے ہوں پھر بھی اسلئے ڈانٹا کہ کہیں نا سمجھ اولاد خود کو بڑی تکلیف میں مبتلا نہ کر بیٹھے۔
نیک اورفرمانبرداراولادہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ اولادکے بڑھنے اورجوان ہونے سے والدصاحب احساس کمتری کاشکارنہ ہونے پائیں،جس طرح والد صاحب کا ہماری زندگی پر ہمیشہ اختیار رہا ہے لہٰذا عمر کے اِس حصّے میں بھی ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ابو کو کبھی احساس نہ ہو کہ اب ہم ”بڑے“ہوگئے ہیں یا ان کی اہمیت گھٹ چکی ہے،لہٰذا پیسے ہونے کے باوجودانھیں اپنے ہر کام کیلئے والدصاحب سے پیسے مانگنا اچھا لگتا ہے، رات اگر کسی پروگرام سے واپسی پر دیر ہوجانے کا خدشہ ہو تو فون کرکے بارباربتاناضروری سمجھتی ہے تاکہ والدصاحب کوفکرنہ ہوپھرواپسی کے بعدسب سے پہلے ان ہی کے پاس جاکرسلام کرکے گویااپنی آمداورحاضری درج کراتی ہے کیونکہ باپ توبہرحال باپ ہے جس کوکوئی بدل نہیں ہے۔
باپ تووہ ہستی ہے جو روڈکراس کرتے ہوئے اپنی جوان اولادکاہاتھ عادتاًہی سہی،بے خیالی میں ہی سہی پکڑلیتی ہے کیونکہ اولادتواولادہوتی ہے کتنی ہی بڑی ہوجائے۔
باپ کی محبت اولاد سے ماسوائے اسکے اور کچھ نہیں مانگتی کہ ”باپ“ کو زندہ رکھا جائے،پھر چاہے وہ چارپائی پر پڑا کوئی بہت ہی بیمار اور کمزور انسان ہی کیوں نہ ہو، اگر اس کے اندر کا ”باپ“ زندہ ہے تو یقین جانئے اسے زندگی میں اور کسی شے کی خواہش اور ضرورت نہیں ہے۔
اپنے بوڑھے باپ کی قدران خاندانی عورتوں سے پوچھوجوگھرمیں اپنی جوان اولاد،شوہراورگھرکے تمام مردوں کی عدم موجودگی میں بسترپرپڑے ”باپ“کے وجودسے خودکومطمئن اورپرامن تصورکرتی ہیں۔
اُن کے سائے میں بخت ہوتے ہیں
باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں
باپ کی حیثیت اس اولادسے پوچھوجن کے والدین ملک عدم سدھارچکے ہوں اورآپ زندگی کے کسی حساس مسئلہ میں کسی جہاں دیدہ شخصیت کے مشورے کے طالب ہوں!
خدارا!اگر آپ کے والدحیات ہیں توان کے اندر کا ”باپ“زندہ رکھئے یہ اس ”بوڑھے شخص“ کا آپ پر حق بھی ہے اورقرض بھی ہے!!کیونکہ آنے والاکل پورے طورپرمنظرکوبدل کررکھ دے گا،سوچئے! آج جس ٹوٹی چٹائی اورپرانے بسترپرآپ کے والدصاحب موجودہیں جنھوں نے آپ کے لئے دن کاچین اوررات کی راحت سب کچھ قربان کرکے اچھاگھر،اچھی تعلیم اوراچھی جائدادچھوڑی ہے ……اُن کے جانے کے بعدوہی چارپائی آپ کی منتظرہوگی اورآپ کے اَریب قریب آپ کے جوان سال صاحب زادگان کھڑے ہوں گے۔
یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں
اس پیڑ کا سایہ مرے بچوں کو ملے گا

مضمون نگار:مفتی ناصرالدین مظاہری،استاذمظاہرعلوم سہارنپور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *