دارالعلوم وقف دیوبند اور بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کچھ حقائق کچھ وسوسے

shahid-aadil

گذشتہ دنوں ” جمعیتہ علماےء ہند ارریہ” کے فعال اور مخلص جنرل سکریٹری جناب حضرت مولانا مفتی “اطہر القاسمی” صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی زبانی “دارالعلوم وقف “کے مایہء ناز استاد حدیث وفقہ حضرت مولانا “شمشاد عالم رحمانی” صاحب حفظہ اللہ کی معرفت ایک خوش کن خبر ملی ،جس سے یقیناً بے انتہا شادمانی ہوئی ،ذہن ودماغ میں اکابرین کے تئیں بے توجہی اور لاپرواہی کی جو بدگمانی تھی وہ دور ہوئی ،اختلاف علماء جو باعث رحمت ہے ،وہ مجھ ناقص خیال کو اس مقام پر باعث زحمت نظر آتی تھی ،میں سوچتا بھی تھا اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کئ بار متعلقہ انتظامیہ سے کرتا رہا ،مگر جزاےء خیر دے اس وقت کے نوجوان اور سرگرم نائب مہتمم “مولانا شکیب قاسمی” صاحب کو جنھوں نے خانوادہء قاسم رحمہ کی فکر کو مہمیز کیا اور اس جانب آپ کافی پیش قدم رہے ،کامیابی بھی آپکو ہاتھ لگی ،اختلاف دارالعلوم کو عرصہ بیت گئے،اس چالیس سال میں مقدمات،آپسی اختلافات اور سارے گلے و شکوے ناپید ہوگئے،شادی بیاہ،موت جنازہ اور زندگی کے روزمرہ حالات پر بھی طرفین میں گفت وشنید ہونے لگی، مگر فضلاےء ادارہ کی اس حق تلفی پر ماضی میں کوئ بہتر اور خوش آئند پیش رفت نہیں ہوئی، ٢٠٠٠ء سے پہلے کے فضلاےء کرام مطابقت سند کی وجہ سے پریشان تونہیں ہوےء، مگر سند پر لفظ “وقف”کا اضافہ اکیسویں صدی کے فضلاء کیلئے باعث زحمت بن گیا،جس کے شکار بیسویں صدی کے وہ فارغین بھی ہوگئے، جنھوں نے دفتر سے سند کی وصولیابی نہیں کی تھی،یہی حالات بعینہ مظاہرعلوم وقف سہارنپور کے بھی ہیں، اللہ کرے وہاں کے بھی مسائل حل ہوجائیں-

میرا رشتہ متعلقہ مدرسہ بورڈ سے جہاں آج ہے، تو وہیں متعلقہ ادارہ بھی میرا مادر علمی رہا ہے ،ایک سالہ تعلیمی دور میں وہاں کے مشائخ سے اکتساب فیض کیا ہے ،تو وہاں کی قدرومنزلت بھی میری نگاہ کی ٹھنڈک ہے،مدرسہ بورڈ پٹنہ سے میرا ایک بہتر لگاوء ہے،بورڈ کے تعلیمی نظام ،تمام درجات کےامتحانات،سوالات کی ترتیب،نصاب کی تعیین،نئے اداروں کے الحاق کی انکوائری،نئے اساتذہ کی بحالی کیلئے ممتحن کا انتخاب اس ناچیز کا نصیب رہا ہے اور ابھی بھی بحمد للہ ہے ،ان امور کی انجام دہی میں مدرسہ بورڈ کے چئیرمین کی قیادت اور سیادت رہتی ہے،پورا کارواں میرکارواں کی سرپرستی میں سرگرم رہتا ہے،جس سے ایک قربت کی نسبت پر انسان ایک دوسرے کی خوبی یاخامی کا ادراک کرسکتا ہے،مدرسہ بورڈ کے قیام سے ابتک بیسیوں سے زائد چیئرمین آےء گئے ،مگر موجودہ “چئیرمین عزت مآب الحاج جناب عبد القیوم انصاری صاحب” کی ایک الگ تاریخ ہوگی،آپ کی شخصیت کو کچھ مفادات پرستوں نے جہاں متنازع بناکر پیش کیا، تو کچھ مسائل کے حل میں عجلت بھی باعث افسوس رہی ہے، مدرسہ بورڈ کے اس ڈیڑھ سالہ کارناموں کی فہرست جلی حروف سے لکھنے کے لائق ہے،مدرسہ بورڈ کے داخلی اور خارجی امور کی انجام دہی جہاں بہتر اسلوب اور سلیقے سے ہوئی ہے، وہیں کچھ شرپسند عناصر نے غلط بیانی اور جھوٹی اطلاعات سے مدرسہ بورڈ کے وقار کو مجروح کرنے کی ناکام کوشش بھی کی ہے،موجودہ چئیرمین کے اخلا ص،خلوص،ایمانداری اور امین میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ نہیں،بلکہ آپ ہمدرد قوم وملت اور غمگسار شخصیت کے متحمل ہیں ،بورڈ کی مضبوطی کیلئے آپ نے ہندو بیرون ہند کے سینٹرل یونیورسیٹیز ،کالجز اور مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں اور علمی شخصیتوں سے ملاقاتیں کی ہیں،علمی اور تعلیمی ورکشاپ کا انعقاد” یونیسیف” کے پلیٹ فارم تک سے کیا ہے،”ڈیزاسٹر منیجمینٹ” کے کورس سے” کورونا” تک پر ملک کے معتبر اور مستند علمی شخصیتوں کی سربراہی میں خدمات کو انجام دئے ہیں،اسی مناسبت سے آپنے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند ، جامعہ سلفیہ بنارس اور دیگر ملک کے بڑوں اداروں کا دورہ آج سے چند ماہ قبل کیا ہے ،وہاں کے اکابرین سے ملے ہیں، اپنے بورڈ کے حالات،ادارے کے مقاصد اور ضروریات پر کھل کرگفتگو کئے ہیں،دارالعلوم دیوبند کے سفر کے موقعہ پر ناچیز سے رابطہ ہوا، ناظم مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا “مقیم الدین “صاحب دامت برکاتہم سے میری گفتگو ہوئی، چئیرمین موصوف کا بہتر استقبال ہوا ،مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی “ابوالقاسم نعمانی” حفظہ اللہ سے گھنٹوں مختلف مسائل پر گفتگو ہوئی، پھر وہاں سے وقف کا سفر ہوا، مولانا “شمشاد عالم رحمانی “صاحب کی معیت میں خانوادہء قاسم کے چشم وچراغ مہتمم دارالعلوم وقف “جناب حضرت مولانا سفیان صاحب” مدظلہ العالیہ سے لمبی ملاقات ہوئی، مولانا شکیب صاحب کی دورس خیال سے بیحد متاثر ہوےء، جن کا تذکرہ موصوف کے رفیق سفر جناب حضرت” مولانا امان اللہ المدنی” نے بڑی وضاحت اور تفصیل سے کی –

اللہ کا کرم ہواکہ وقف کے فضلاء کو راحت نصیب ہوئی اور ادارے کےوقار پر ایک چاند اور اگا ،اس پر چئیرمین محترم کا جتنابھی شکریہ ادا کیا جاےء کم ہے ،مگر چونکہ چیئرمین موصوف خود علم دوست اور علماءنواز ہیں،ہم سبھوں کے امیر اور رہنما ہیں،سب سے بڑی بات یہ ہیکہ ہم آپ کے عزیز بھی ہیں، جس کو ملحقہ مدارس کے لوگ بالعموم جانتے بھی ہیں،اور آپ کی محبت کی بدولت ہندو بیرون ہند کی علمی دنیا کے شناوروں کے ساتھ گاہے بگاہے بیٹھنے کا بھی شرف حاصل رہتا ہے ،آپ کے وقف کے” تسلیم سند “کے فیصلے پر اولاشکریہ ثانیا مبارکباد ہی مبارکباد ،مگر درجہ مولوی کے امتحان میں شمولیت کی اجازت پر تذبذب کا شکار ہوں،کچھ وساوس دماغ میں اپج آےء ہیں ،کچھ اصحاب فکر کے سوالات بھی جائز جیسے لگتے ہیں،جس کی تسلی آنمحترم سب سے بہتر انداز میں دے سکتے ہیں،اور وساوس کا قلع قمع کرسکتے ہیں ،مستقبل کے خوشگوار فکر آپ کی شناخت ہے، اس پر بھی دھیان مرکوز رہے تو شاید یہ تسویش ہی سرے سے ختم ہوجاےء-
(١)مولوی درجہ میں ایڈمیشن کیلئے دارالعلوم وقف یا ایسے تسلیم شدہ اداروں کا بنیادی معیار کیا ہوگا؟
(٢)دارالعلوم وقف ہی نہیں بلکہ اکثر وبیشتر نظامیہ ادارے میں فضیلت کی کورس کرنے کے بعد فاضل کی سند ملتی ہے ،جس میں تقریبا سات سال لگتے ہیں ،تو کیا ایک فاضل دارالعلوم فضیلت کی ڈگری سے مولوی کا امتحان دیگا جبکہ فاضل اور مولوی کی سند کا توازن اورتماثل آپ ہم سے بہتر سمجھتے ہیں؟
(٣)تسلیم شدہ ادارے کے فضلا جبکہ وہاں کے فاضل کی سند سے فاضل عہدہ پر ملحقہ مدارس میں بحال ہوجاتے ہیں، تو کیا مولوی کرنے کے بعد اسکی فضیلت کی ڈگری برقرار رہے گی؟
(٤)کیا مستقبل میں ایک شوشہ جنم نہیں لیگا کہ فاضل دیوبند یادوسرے تسلیم شدہ ادارے کے فضلاکی بحالی وہاں کی فاضل والی ڈگری سے نہیں ہوگی؟
(٥)کیا فاضل کی سند فوقانیہ کی سند کے مساوی نہیں ہوجائیگی؟
(٦)کیا مدارس اسلامیہ کی سند کم وزن اور بے معنی نہیں ہوجائیگی؟
یہ الجھن پیدا ہوگیا ہے ،جس سے بہت سارے لوگ فکرمند ہیں ،یقیناً آپ مخلص ہیں، آپ کی نیک نیتی میں بالکل کوئ کلام نہیں ،مگر ان کی وضاحت آپ کی طرف سے ضروری ہے، تاکہ بھوش میں کوئ اشکال نہ ہوجاےء اور قوم وملت کا کوئ نقصان نہ ہوجائے۔

مضمون نگار: شاہد عادل قاسمی

پرنسپل مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ 9006607282

 

نوٹ:مضمون نگارکی ذاتی رائے ہیں،اس کیلئے ارریہ ٹائمز کسی طرح ذمہ دارنہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *