حضورصلی اللہ علیہ وسلم کاعہدطفولیت
نبی اکرم شفیع اعظم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کاشجرہ اطہرباتفاق مفسرین ومحدثین ومورخین یہ ہے۔
حضرت محمدصلی علیہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہربن مالک بن نضربن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضربن نزاربن معدبن عدنان (بخاری)
حضرت حافظ ابن حجرعسقلانی ؒ فرماتے ہیں: امام بخاریؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب نامہ کواپنی جامع میں عدنان تک ذکرفرمایاہے مگراپنی تاریخ میں ان سے آگے کانسب نامہ بھی ذکرفرمایاہے وہ یہ ہے:عدنان بن ادوبن ابن القوم بن تارح بن یشجب بن ثابت بن اسمٰعیل بن ابراہیم علیہم السلام۔حضرت ابراہیم سے آگے کے نسب نامہ تاریخ کی کتابوں میں موجودہے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدماجدکانام عبداللہ تھااوروالدہ ماجدہ کانام آمنہ تھا،نکاح کے چندروزبعدعبداللہ بغرض تجارت ملک شام تشریف لے گئے،بیماری کے پیش نظر اہل قافلہ نے مشورہ کے بعدعبداللہ کومدینہ منورہ میں آپ کے نانہال بنی نجارمیں ٹھہرادیااورایک ماہ بعدجب یہ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچاتوعبدالمطلب نے اپنے نورنظرکونہ پاکروجہ دریافت کی،بتایاگیاکہ انھیں راستہ میں بیماری لاحق ہوگئی تھی اس لئے مدینہ میں بنی نجارکے یہاں اپنے نانہال میں رک گئے ہیں۔عبدالمطلب نے فوراًاپنے بڑے بیٹے حارث کومدینہ روانہ کیالیکن جب وہ مدینہ منورہ پہنچے اس سے پہلکے عبداللہ انتقال کرگئے اورنابغہ نامی ایک شخص کے مکان میں تدفین کی گئی۔
یہ المناک خبرجب عبدالمطلب کے گوش گزارکی گئی توغم واندوہ کے کوہ گراں گرپڑے،قیس بن مخرمہ کی راویت ہے کہ جب عبداللہ کاانتقال ہوااس وقت حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ماں کے پیٹ میں تھے۔
عبداللہ کے انتقال کے بعداوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباًپچاس دن پہلے مشہورواقعہ اصحاب الفیل پیش آیایہ ماہ محرم کی بات ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اس دنامیں ماہ ربیع الاول میں ہوئی ہے۔
تاریخ ولادت میں مورخین کااختلاف ہے لیکن مشہورقول بارہ ربیع الاول کاہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت دوشنبہ یعنی پیرکے دن صبح صادق کے وقت ہوئی۔
حضرت عثمان بن ابی العاص کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت عبداللہ فرماتی ہیں کہ رقول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت میں آپ کی والدہ ماجدہ کے پاس تھی میں نے دیکھاکہ پوراگھرروشن ومنورہوگیاہے،آسمان کے ستارے جھکے آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے گمان ہواکہ مبادایہ ستارے میرے اوپرنہ گرپڑیں۔
حضرت عرباض بن ساریہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے ولادت باسعادت کے وقت ایک نوردیکھاجو جس سے شام کے محل روشن ہوگئے۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ بصریٰ کے محل روشن ہوگئے۔
ستاروں کے جھکنے اورزمین سے قریب ترہونے کے مفہوم اورمطالب محدثین نے اپنے اپنے طورپرالگ الگ بیان فرمائے ہیں لیکن تمام کی آراء میں ایک رائے سب سے زیادہ قوت کے ساتھ یکساں ہے کہ ستاروں کے جھکنے کامطلب یہ ہے کہ اب کفرکی ظلمت دورہوگی،شرک کی نحوست کافورہوگی،ضلالت اورگمراہی کاخاتمہ ہوگا،عصیان اورطغیان کی کمرٹوٹے گی،شیطنت کومنہ کی کھانی ہوگی،حیوانیت اوردرندگی عنقاہوکرانصاف اورامن کی فضائیں چھاجائیں گی،اسلام تمام تاریکیوں پرحاوی اورایمان تمام دلوں میں طاری اوراللہ اوررسول کانام نامی ہرزبان پرجاری ہوجائے گا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ ایک یہودی مکہ مکرمہ میں تجارت کی غرض سے رہتاتھا جس شب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے اس وقتاس یہودی نے اپنی مجلس میں قریش سے پوچھاکہ آج شب کوئی بچہ پیداہواہے؟قریش نے لاعلمی کااظہارکیا،یہودی نے کہاتحقیق کروکیونکہ آج اس امت کانبی پیداہواہے اس کے دونوں شانوں کے درمیان ایک علامت ہے وہ بچہ رات تک دودھ نہ پئے گاکیونکہ ایک جنی نے اس بچہ کے منہ پرانگلی رکھ دی ہے،تحقیق کے بعدمعلوم ہواکہ عبدالمطلب کے بیٹے عبداللہ کے گھرمیں ایک بچہ پیداہواہے،یہودی نے دیکھنے کی خواہش ظاہرکی اورجب بچہ کودیکھااوراس کی نظردونوں شانوں کے درمیان مہرنبوت پرپڑی توغش کھاکرگرپڑا،ہوش آنے پراس نے بتایاکہ اب نبوت بنی اسرائیل سے چلی گئی۔اے قریش!یہ نومولودتم پرایک ایساحملہ کرے گاجس کی خبرمشرق سے مغرب تک پھیل جائے گی۔(سیرت المصطفیٰ)
مشہورکہاوت ہے”ہونہاربرواکے چکنے چکنے پات“ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یوں توپوری زندگی ہی ایک معجزہ تھی،آپ کی ولادت باسعادت کے وقت پیش آنے والے عجیب وغریب واقعات کواگریکجاکیاجائے توتفصیلی کتاب بن جائے گی۔چنانچہ مورخین نے اپنی کتابوں میں، محدثین نے اپنی مسانیدمیں اورمفسرین نے اپنی تحقیقات میں ایسے واقعات کوبڑے خوبصورت اندازواسلوب میں بیان فرمایاہے۔
ولادت باسعادت والی رات کوایک اورواقعہ پیش آیاکہ ایوان کسریٰ میں زلزلہ آیاجس کی تاب نہ لاکراس محل کے چودہ گنگرے گرگئے،اسی طرح فارس کاوہ آتش کدہ جوچودہ ہزارسال سے نہ بجھاتھانبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوروی کے ساتھ ہی بجھ گیا،ساوہ نامی ایک دریاجس کوکسی نے خشک ہوتے نہیں دیکھاتھاوہ بھی اچانک خشک ہوگیا۔
ایوان کسریٰ میں زلزلہ نے صرف عمارتوں کونہیں ہلایابلکہ وہاں کے مکینوں کے دلوں کوبھی ہلادیا،ہراس اورسراسیمگی ان کے چہروں سے عیاں اورہویداتھی،پریسانی اورحیرانیاں ہویدتھیں،یاس اوقنوطیت کے منجدھارمیں گرفتہ اورخوف اوردہشت کے عالم میں اس کی حالت دیدنی تھی۔شہ کسریٰ کی حالت بھی دیدنی اوراس کی کیفیت ناگفتنی تھی،اس نے ارکان دولت کوطلب کیااوراس سلسلہ میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی،اسی اثنامیں ایک اورشخص نے اپنا خواب بیان کرکے کسریٰ کی پریشانیوں میں مزیداضافہ کردیااس نے بتایاکہ میں نے خواب دیکھاہے سخت اونٹ عربی گھوڑوں کوکھینچے لے جارہے ہیں اوردریائے دجلہ سے پارہوکرتمام ممالک میں پھیل گئے،خواب والے نے خواب توبتادیامگراس کی تعبیرکسی کی سمجھ میں نہیں آئی،جس زمانے میں سطیح نامی ایک شخص تھاجس تعبیرات کاعلم بھی تھا،جہاندیدہ،تجربہ کاراورعمردرازتھا، عبدالمسیح غسانی کوسطیح کے پاس بھیجاگیالیکن وہ نزع کے عالم میں تھامگرہوش وحواس باقی تھے اس نے کہاکہ اے عبدالمسیح!خوب سمجھ لے جب کلام الہی کی تلاوت کثرت سے ہونے لگے،صاحب عصاظاہرہو،وادی سماوہ رواں اوردریائے ساوہ خشک ہوجائے،فارس کی آگ بجھ جائے توسطیح کے لئے شام شام نہ رہے،بنی ساسان کے چندمرداورچندعورتیں بقدرکنگروں کے بادشاہت کریں گے اورجوشئی آنے والی ہے وہ گویاآہی گئی ہے۔(سیرت المصطفیٰ:صفحہ ۰۸جلد۱)
ایک روایت میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تولدہوئے توآپ کے ہونٹ ہل رہے تھے ایک عورت جووہاں موجودتھی اس نے اپنے کانوں کورسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں سے قریب کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعافرمارہے تھے کہ اے اللہ میری امت کی بخشش فرمادے۔
آپ کی ولادت باسعادت کے موقع پرایک اورعجیب بات یہ نوٹ کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولادت کے وقت بالکل نظیف،پاک وضاف اورمختون پیداہوئے،آپ کی ناف بھی فطری طورپرکٹئی ہوئی تھی،آپ کے داداعبدالمطلب نہ یہ کیفیت دیکھی توخوش ہوکرکہاکہ میرے بیٹے کی بڑی شان ہوگی۔(طبقات ابن سعد)
خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے ارشادفرمایاکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تودلہوئے توبالکل پاک وصاف تھے اورجسم اطہرپرکوئی گندگی اورآلائش نہیں تھی۔(طبقات ابن سعد)
عبدالمطلب نے ولادت کے ساتویں روزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاعقیقہ کیااوراس تقریب سعیدمیں تمام قریش کودعوت دی اورنام مبارک محمدتجویزکیا،اس نئے نام کوسن کرقریش نے پوچھاکہ آپ نے یہ نام کس لئے تجویزکیاحالانکہ آپ کے آباء واجدادمیں اس جیسانام کبھی بھی کسی نے بھی نہیں رکھاہے۔انہوں نے جواب دیاکہ میں نے یہ نام اس لئے تجویزکیاہے تاکہ اللہ تعالیٰ آسمان میں اوراللہ تعالیٰ کی مخلوق زمین میں اس مولودکی حمدثناکرے۔
بعض روایات کے مطابق عبدالمطلب نے ایک خواب دیکھاتھاکہ ایک زنجیران کی پشت سے ظاہرہوئی جس کاایک سراآسمان کی جانب،ایک سرزمین کی جانب،ایک سرامشرق میں اورایک سرمغرب میں ہے کچھ ہی دیرگزری تھی کہ وہ زنجیرایک درخت بن گئی جس کے ہرپتہ پرایسانورہے کہ جوآفتاب کے نورسے ستردرجہ زائدہے،مشرق ومغرب کے لوگ اس کی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں اورقریش میں سے بھی کچھ لوگ اس کی شاخوں کوپکڑے ہوئے ہیں جب کہ کچھ لوگ اس کی شاخوں کوکاٹنے کاارادہ کررہے ہیں،جب لوگ کاٹنے کی نیت سے اس درخت کے پاس جاتے ہیں توایک نہایت حسین وجمیل جوان ان کوہٹادیتاہے۔
تعبیرکاعلم رکھنے والوں نے اس کی تعبیریہی بتائی کہ تمہاری نسل میں سے ایک لڑکاپیداہوگاجس اتباع اوراقتداء مشرق ومغرب تک کے لوگ کریں گے اورآسمان وزمین والے اس ی حمدوثناکریں گے۔(زرقانی)
اسی خواب کے باعث عبدالمطلب کے ذہن میں یہ نام پاک رکھنے کاخیال پیداہوااسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والد ماجدہ نے خواب میں دیکھاکہ کوئی ان سے کہہ رہاہے کہ جوبچہ تمہارے پیٹ میں پرورش پارہاہے اس کانام نامی محمدرکھنااورایک روایت میں ہے کہ احمدرکھنا(عیو الاثر)
ایک عجیب اتفاق یہ بھی ہے جس کوصرف اورصرف مشیت خداوندی ہی کہاجاسکتاہے کہ عبدالمطلب نیاپنے بیٹے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدماجدکانام عبداللہ رکھاتھاجومحض القائے ربانی تھااوریہ نام اللہ کوسب سے زیادہ محبوب اورپسندیدہ ہے اسی طرح عبدالمطلب نے عام خاندانی روایات اوراندازسے الگ اورمنفردنام ”محمد“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تجویزکیاجوصرف اورصرف الہام ربانی ہے۔اسی کوشرح مسلم میں علامہ نووی ؒنے اورابن فارس ؒ وغیرہ نے نقل کیاہے۔
ولادت کے بعدتین چارروزتک آپ کی والدہ ماجدہ نے دودھ پلایاپھرابولہب (جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاچچاتھا)کی باندی ثویبہ دودھ پلایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی اطلاع جب ابولہب کوپہنچی تواس نے خوشی کے باعث اپنی باندی ثویبہ کوآزادکردیاتھایہی وہ خوش نصیب باندی ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاحضرت حمزہ ؓکوبھی بھی دودھ پلایاتھااسی لئے اس رشتہ سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اپنے بھتیجے حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی ہیں۔(سیرت المصطفیٰ)
عرب کے دستورکے مطابق امیراورشہزادوں کی پرورش گاؤں کے ماحول میں ہوتی تھی تاکہ وہاں کی تہذیب اورثقافت کے ساتھ وہاں کے ماحول اورزبان میں فصاحت پیداہوسکے۔اسی لئے قرب وجوارکے گاؤں اوردہات سے بہت سی عورتیں شیرخواربچوں کولینے آتی تھیں کیونکہ بدلے میں انھیں معقول اجرت ملتی تھی۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہابھی اسی لئے شہرمکہ مکرمہ تشریف لائیں تاکہ وہ بھی ایک شیرخوارکوگودلے لیں اوراس کی پرورش کریں،اس وقت جتنے بچے اس لائق تھے اوران بچوں کے والدین امیرکبیرتھے وہ تمام بچے عورتوں نے لے لئے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی عورت پہنچتی اوراس کومعلوم ہوتاکہ یہ بچہ یتیم ہے توعورتیں صرف اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لینے سے انکارکردیتیں کہ جب والدنہیں ہے توخاطرخواہ انعام اوراجرت کون دے گا۔حضرت حلیمہؓکواب تک کوئی بچہ نہیں مل سکاتھااورروانگی کاوقت قریب ترتھا،حضرت حلیمہ کوخالی ہاتھوں واپس جاناشاق گزاررہاتھااوریہی وہ وقت تھاجب ہاتف غیبی نے حضرت حلیمہ کانوں میں کہ حلیمہ اس بچہ کولے لے کیونکہ یہ کونین کاسردارہے۔حضرت حلیمہ کے دل میں یہ بات آئی اورانہوں نے اپنے شوہرسے اپنے دل کی بات کی توشوہربھی تیارہوگیااورکہاکہ ”کوئی حرج نہیں ہے اورامیدہے کہ حق تعالی اس کوہمارے لئے خیروبکرت کاسبب بنادے گا“
حضرت حلیمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوگودکیالیاکہ آپ کی دنیاہی بدل گئی،آپ کی کمزورسواری میں خداجانے کہاں سے قوت وتوانائی آگئی۔آپ کے خشک پستانوں میں دودھ آگیا،اوردودھ اتناآیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی شکم سیرہوجاتے۔ادھراونڈنی جوپہلے سے ہی کمزورتھی اورضرورت کے بقدردودھ نہیں دے پاتی تھی ایک عجیب معجزہ ہواکہ اونٹنی کے تھن دودھ سے بھرگئے۔حضرت حلیمہ کہتی ہیں میں نے اورمیرے شوہرنے خوش بیٹ بھرکردودھ پیا،وہ رات ہماری بہت ہی آرام سے گزری صبح ہوئی توشوہرنے حضرت حلیمہ سے کہا”حلیمہ!خوب سمجھ لوکہ تم نے جوبچہ لیاہے وہ بہت ہی مبارک بچہ ہے“حضرت حلیمہ نے خوشی سے نہال ہوکرکہاکہ:واللہ انی لارجوذلک“خداکی قسم میں یقین سے کہتی ہوں کہ میں اللہ سے یہی یقین رکھتی ہوں۔
اپنے قبیلے کی طرف جب واپسی ہوئی تواونٹنی میں حیرت انگیزچستی اورقوت کانظارہ کیاگیا،اپنے قبیلہ بنی سعدمیں پہنچیں تووہاں قحط تھا،زمینیں خشک تھیں لیکن حضرت حلیمہ کہتی ہیں کہ خداکی قسم میری بکریاں شام کوجب چرنے کے بعدواپس آتیں توان کے تھنوں میں دودھ لبالب بھراہوتاتھاجب کہ دوسروں کی بکریوں کے تھن دودھ نہ ہونے کی وجہ سے بالکل خالی اورخشک ہوتے تھے۔(ابن ہشام)
حسب معاہدہ دوسال کے بعدحضرت حلیمہ اس امانت کوحضرت آمنہ کے سپردکرنے شہرپہنچیں اوریہ التجاکی کہ چندروزکے لئے اپنے نونہال کومیرے پاس اوررہنے دواورحضرت آمنہ نے حضرت حلیمہ سعدیہ کی درخواست منظورکرلی۔اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حلیمہ کے ہمراہ پھربنی سعدپہنچ گئے اورکچھ ہی دنوں بعداپنے رضاعی بھائی کے ہمراہ چراگاہ بھی جانے لگے۔
ایک دفعہ آپ اپنے بھائی کے ہمراہ بکریاں چرانے کے لئے کھیتوں کی طرف تشریف لے گئے کہ یکایک دوسفیدپوش آدمی آئے اورانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاشکم مبارک چاک کیااوردوبارہ پہلے کی طرح سی دیا۔یہ منظررضاعی بھائی نے دیکھاتوبھاگے بھاگے اپنے والدین کے پاس پہنچے اورساراماجرابیان کیا۔وہ دونوں بدحواسی کے عالم میں وہاں پہنچے توآپ ایک جگہ کھڑے ہوئے تھے،حضرت حلیمہ نے دوڑکرسینہ سے چمٹالیا،رضاعی بھائی کے والدنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرط محبت میں اپنے سینہ سے لگالیااورغایت شفقت ومحبت سے رودادمعلوم کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساراواقعہ بیان کردیا۔
مورخین کے مطابق شق صدرکاواقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوچارمرتبہ پیش آیاجس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں موجودہے۔ اوراجمالاحضرت مولانامحمدادریس کاندھلویؒفاضل مظاہرعلوم سہارنپورنے اپنی کتاب سیرت المصطفیٰ میں بیان فرمائی ہے۔
شق صدرکے اس واقعہ سے پریشان ہوکرحضرت حلیمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کولے کروالدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے پاس پہنچیں اورپورااحوال سنایاتوحضرت آمنہ بالکل پریشان نہیں ہوئیں کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم شکم مادرمیں تھے اسی وقت سے مادرمہربان کوطرح طرح کی عجیب اورخرق عادت چیزیں نظرآتی تھیں اس لئے پورے اعتماداوروثوق سے فرمایاکہ میرے اس بچہ پرکوئی شیطانی اثرنہیں ہوسکتاتم اطمینان رکھو۔
اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ رہنے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک چھ سال کی تھی جب آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ اپنے نانہال مدینہ منورہ کارخ کیا۔اس سفرمیں حضرت ام ایمن بھی ساتھ تھیں،آپ ایک ماہ والدہ ماجدہ کے ہمراہ اپنے نانہال میں رہے پھروالدہ ماجدہ کے ہمراہ واپس مکہ مکرمہ کارخ کیالیکن ابھی آپ راستے میں ابواء نامی مقام پرپہنچے تھے کہ چانک حضرت آمنہ اللہ کوپیاری ہوگئیں اوروہی ان کی تدفین ہوئی۔
حضرت ام ایمن آپ کو لے کرمکہ مکرمہ آئیں اورعبدالمطلب کے سپردکردیا،داداجان ہمیشہ آپ کواپنے ساتھ رکھتے تھے،پورے مکہ میں عبدالمطلب کی عزت اوراحترام کیاجاتاتھااس لئے جب خانہ کعبہ جاتے تو کے سایہ میں ایک خاص فرش بچھایاجاتااورعبدالمطلب اس پربیٹھتے تھے،عوام کی نظروں میں اس مسندکی عظمت کایہ عالم تھاکہ خودعبدالمطلب کے دیگرصاحب زادگان اورارباب دولت بھی اس مسندپرقدم نہیں رکھ سکتے تھے،جس کوبھی بیٹھناہوتاتھاوہ اس مسندکے حاشیہ اورکنارے پرہی بیٹھتاتھامگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وہاں تشریف لے جاتے توبے تکلف اس مسندپرتشریف رکھتے لوگ ہٹاناچاہتے توخودعبدالمطلب منع کردیتے اورفرماتے کہ میرے اس بیٹے کوچھوڑدوکیونکہ اس کی شان ہی نرالی ہے پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے قریب کرلیتے اورکمال شفقت ومحبت سے پہلومیں بٹھاتے اورمسرورہوتے تھے(سیرت المصطفیٰ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسال تک اپنے داداکی پرورش میں رہے اورپھرجب عمرمبارک کی آٹھویں منزل میں پہنچے توعبدالمطلب بھی اس دنیاسے رخصت ہوگئے۔ابوطالب جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی بھائی اورچچاتھے اس لئے عبدالمطلب نے اپنی وفات سے پہلے ابوطالب کوبلایااورنصیحت کی کہ کمال شفقت ومحبت اورغایت محبت ومروت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کرنا(عیون الاثر)
آپ اپنے چچاابوطالب کی کفالت میں رہے یہاں تک کہ جب بارہ سال دومہینے عمرمبارک پہنچی تواپنے چچاکے ہمراہ اس تجارتی قافلے میں شامل ہوگئے جوشام کی طرف جارہاتھااثناء سفرتیماء نامی ایک مقام پرقیام فرمایااتفاقاًایک یہودی عالم جس کوبحیراکہاجاتاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرااورآپ کودیکھتے ہی ابوطالب سے کہنے لگاکہ یہ لڑکاجوآپ کے ساتھ سفرکررہاہے کون ہے؟ابوطالب نے بتایاکہ میرابھتیجاہے،بحیرانے پوچھاکہ کیاآپ اس پرمہربان ہیں اوراس کی حفاظت کرناچاہتے ہیں؟ابوطالب نے کہابے شک میں اس کی حفاظت کرناچاہتاہوں۔یہ سن کربحیرانے کہاکہ خداکی قسم اگرتم اس کوشام لے گئے تووہاں کے یہودی اس کوقتل کردیں گے کیونکہ یہ خداکانبی ہے جویہودکے دین کومنسوخ کرے گااورمیں اس کی صفات آسمانی کتابوں میں پاتاہوں۔چنانچہ ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت ابوبکراورحضرت بلال کے ہمراہ واپس مکہ مکرمہ بھیج دیا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک بیس سال کوپہنچی توجنگ فجارکاواقعہ پیش آیااس جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچاؤں کوتیرپکڑارہے تھے،خودکوئی تیرنہیں چلایاتھا۔
جنگ فجارکے چندماہ بعدایک معاہدہ حلف الفضول کے نام سے طے پایاجس میں اس وقت کے پانچ اہم قبائل بنوہاشم،بنوعبدالمطلب،بنواسد،بنوزہرہ،بنوتمیم۔شریک تھے،اس معاہدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھرپورحصہ لیاتھا۔
مدینہ منورہ کی مالدارخاتون حضرت خدیجہ بنت خویلدنے اپناسامان تجارت بغرض تجارت آپ کے حوالہ کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ کے ہمراہ ملک شام تشریف لے گئے جہاں کافی نفع ہوا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک پچیس سال کی ہوئی توآپ نے حضرت خدیجہ سے نکاح کیا،حضرت خدیجہ اس وقت بیوہ تھیں اوران کی عمرچالیس سال تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے مکہ مکرمہ میں اپنی امانت ودیانت،صدق وہمدردی،شرافت واخلاق،صلح ومصالحت اوردیگرصفات حسنہ سے متصف ہوچکے تھے اورعرب کے بہت سے افراداپنی امانتیں آپ کے پاس جمع کرنے لگے تھے۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۵۳سال کے ہوئے توخانہ کعبہ کی نئی تعمیرکے دوران حجراسودنصب کرنے کے معاملہ میں قبائل آپس میں بحث وتکرارکرنے لگے اورممکن تھاکہ تلواریں نکل آئیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال تدبراوردانائی کامظاہرہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ایک چادرلائی جائے،چادرلائی گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسودکواٹھاکرچادرپررکھ دیااورسب سے کہاکہ سب قبائل چادرکے گوشے پکڑکرحجراسودکواس کی جگہ لے چلیں۔ایساہی کیاگیاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجراسودکواٹھاکراس جگہ پررکھ دیااوراس طرح ایک بڑافتنہ ابھرنے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔
اورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چالیس اورایک دن کے ہوئے تواللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفرازفرمایااورغارحرامیں سورہئ اقرأنازل ہوئی۔
پھرچشم فلک نے دیکھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلہ صدق وصفامیں یکے بعددیگرے افرادشامل ہوتے گئے،کارواں بنتاگیا،کفرکی تاریکیاں کافورہوتی چلی گئیں،شیطانی ماحول کاخاتمہ ہوا،انسانوں نے حقیقی انسانیت کامزہ چکھا،عورتوں کوان کاباعزت مقام ملا،جاہلیت کے بادل چھٹ گئے اورعلم ونورکی کہکشاؤں سے ساراعالم بقعہ نوراورمنبع سروربن گیا۔
سچ کہاہے مولاناالطاف حسین حالی مرحوم نے ؎
وہ بجلی کاکڑکاتھایاصوت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے جلادی
اک آوازمیں سوتی بستی جگادی
راشدالاسلام
یہ بھی پڑھیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک انگلیاں