موسیقی نہ صرف علم اور سائنس ہے بلکہ ایک ایسی عالمی زبان ہے جسے دنیا کا ہر انسان سمجھ سکتا ہے، اور اس سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ جن فنون کے ذریعہ جذبات انسانی کا ظہور ہوتا ہے ان میں سب سے موثر فن، موسیقی ہے۔ موسیقی فنون لطیفہ کی قدیم اصناف میں سب سے پر کشش صنف ہے۔ جب الفاظ وجود پذیر بھی نہیں ہوئے تھے، تب بھی مختلف آوازیں موجود تھیں جنہیں اگر موسیقی کی ابتدا مانا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ موسیقی کا رواج متعدد مذاہبِ عالم میں مختلف رہا ہے۔ اور اس کی اہمیت و افادیت سے سوائے چندے، کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یونان میں موسیقی ایک مقدس فن سمجھا جاتا تھا۔ مگر ارسطو نے اس کو ریاضی کے قبیل سے شمار کیا ہے اور ابن سینا بھی اسی کا قائل ہے۔ اسی طرح زرتشتی مذہب میں بھی اس کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔
14 ویں صدی کے شاعر امیر خسرو نے ہندوستانی سنگیت میں کیا ایجاد کیا یا اُسے کیا دیا ، اس بارے میں بہت سے دعوے کیے جاتے ہیں خصوصاً ہندوستانی کلاسیکی اور شمالی ہندوستانی اور پاکستان کے صوفیانہ موسیقی کے پیشہ وروں کی طرف سے ۔ ایسے دعووں کی فہرست میں خصوصیت سے ستار اور طبلہ آلاتِ موسیقی میں، اور گیتوں میں قوالی ، قول ، قلبانہ ، ترانہ ، خیالہ ، سہیلہ اور بسیط، اور راگوں میں ایمن ، ساز گیری ، عشاق ، باخراز اور صولِ فاختہ جیسی تالیں شامل ہیں ۔ یہ تمام نام اور اُن کی خسرو سے وابستگی بظاہر شمالی ہند کے موسیقاروں کے خاندانو ں کی صدیوں کی زبانی روایتوں کے ذریعہ یاد رکھی گئیں اور مغل عہد کے تاریخی متون میں بھی درج پائی گئیں ۔
دلچسپ بات ہے کہ امیر خسرو نے خود موسیقی اور موسیقیت میں شغف رکھتے ہوئے یہ نہیں لکھا کہ انہوں نے موسیقی میں کچھ ایجاد کیا ہے ، حالانکہ انہوں نے شاعری اور زبان میں اپنی ایجادات فخریہ بیان کی ہیں ۔ البتہ ایک نظم کے ایک شعر میں موسیقی اور شاعری کے اچھے بُرے پہلوؤں پر کچھ فرماتے ہوئے انہوں نے کہا ہے ، ’’ (تاحال) میں نےشاعری کے تین دیوان مرتب کیے ۔ اور اگر آپ یقین کریں تو کہوں ، میں موسیقی کی بھی تین جلدیں محفوظ کر سکتا تھا ‘‘ (بحوالہ ملک رشید ، ’’ امیر خسرو کا علم موسیقی ‘‘ ، 2000) ۔ اس بیان کی اکثر یہ کہہ کر تشریح کی جاتی ہے کہ اگر موسیقی کی دھنوں کو مرتب کرنے کی زبان اور قاعدہ اُس عہد میں موجود ہوتا تو خسرو اپنی دھنوں کو محفوظ کر جاتے ۔
مولانا ابوالکلام آزاد کہتے ہیں کہ اسلام موسیقی کا مخالف نہیں بلکہ اس میں بہت زیادہ ملوث ہونے کے ڈر سے سختی سے روکتا ہے۔ ہندوستانیوں کے یہاں موسیقی کو ایک قسم کی عبادت سمجھا جاتا ہے اور اس کے کچھ خاص علاقوں میں موسیقی کا رواج بہت ہی زیادہ ہے، خصوصا بنگال جیسی سرزمین اس فن میں پیش پیش ہے۔ ہندوستان میں جہانگیر کے عہد تک آتے آتے موسیقی بھی ایک ہنر اور ہنرمندی کی علامت سمجھا جانے لگا تھا۔ اورنگ زیب کے عہد میں موسیقی پر پابندی کی کوشش کی گئی مگر یہی وہ عہد ہے جس میں موسیقی پر سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئیں۔
موسیقی کی کئی اقسام ہیں لیکن ہمیں سر دست علاقہ ہندوستانی موسیقی سے ہے۔
اصطلاح کے طور پر موسیقی فن کی ایسی شکل ہے جس میں آواز اور خاموشی کو وقت میں ایسے ترتیب دیا جاتا ہے کہ اس سے سر پیدا ہوتے ہیں۔ سر آپس میں مل کر راگ اور نغمے ترتیب دیتے ہیں۔ جس طرح سر اور تال لازم و ملزوم ہیں ٹھیک اسی طرح راگ اور نغمے کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔
موسیقی کا سب سے اہم رکن خیال گائیکی ہوتا ہے جس میں الفاظ پر کم اور آواز پر زیادہ توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ خیال گائیکی میں استعمال ہونے والی صنف خیال کہلاتی ہے۔ اس کی مثال کسی ڈرامے کے مرکزی خیال (Theme) کی طرح ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ڈرامہ آگے بڑھتا ہے۔ اسی انداز میں ایک فنکار بندش یا ٹھمری لے کر اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے۔ بندش دراصل راگ کی ایک مکمل تصویر ہوتی ہے۔ ہمارے وہ فنکار یقینا قابل تحسین ہیں جنہوں نے کڑی محنت سے خیال سے ٹھاٹھ ترتیب دئیے اور پھر ٹھاٹھ سے راگ، بندشیں اور ٹھمریاں ترتیب دیں اور فن موسیقی کی اس صنف کو عروج لازوال بخشا۔
موسیقی کی اصناف کے لئے کسی بھی زبان میں دو قسم کے الفاظ ملتے ہیں۔ ایک غیر نغماتی جو لہجے کے اعتبار سے ثقیل اور مہمل ہوتے ہیں اور گاتے ہوئے حروف الگ الگ ادا نہیں کئے جاسکتے کیونکہ زبان کا لہجہ متاثر ہوتا ہے۔ دوسرے نغماتی الفاظ جو موسیقی کے لئے نہایت موزوں ہوتے ہیں۔ ہلکی پھلکی موسیقی میں تو گیت کی بحر کو ہی لے کے چلنا پڑتا ہے لیکن کلاسیکل موسیقی کی بندشیں ان قیود سے آزاد ہوتی ہیں۔
موسیقی میں سپتک سب سے بنیادی رکن ہوتا ہے۔ سپتک کو انگریزی میں اوکٹیو (Octave) کہتے ہیں۔ اگر ہم ایک آلہ موسیقی سے آواز نکالیں اور اسے اونچی کرنا شروع کریں تو ہم یہ دیکھیں گے کہ وہ آواز اونچی ہونے کے ساتھ ساتھ پتلی ہوتی جائیگی اور ایک حد ایسی آن پہنچے گی جس مقام کی آواز ابتدائی آواز کی دوگنی ہوجائیگی۔ آواز کی ان دو حدود کے درمیانی فاصلے کو سپتک کہتے ہیں۔ ایک سپتک میں بارہ سر (Notes) ہوتے ہیں جو ذیل میں درج کیے جاتے ہیِں:
۱۔ کھرج یعنی سا ( شدھ)
۲۔ رکھب یعنی رے ( کومل اور شدھ)
۳۔ گندھار یعنی گا ( کومل اور شدھ)
۴۔ مدھم یعنی ما ( شدھ اور تیور)
۵۔ پنچم یعنی پا ( شدھ)
۶۔ دھیوت یعنی دھا ( کومل اور شدھ)
۷۔ نکھاد یعنی نی ( کومل اور شدھ)
سپتک تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔ مندر سپتک ( Lower Octave), مدھ سپتک (Middle Octave) اور تار سپتک ( Upper Octave).
موسیقی آج کے اس عہد میں بھی اپنے جدید آلات اور اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اردو ادب میں بھی اس موضوع پر بہت زیادہ تو نہیں لیکن کافی کچھ لکھا گیا ہے اور موجودہ دور میں جہاں دیگر پلیٹ فارم سے موسیقی ہوتی رہتی ہے وہیں ریختہ کی سرکردگی میں ہونے والے سہ روزہ “جشن ریختہ” میں صرف موسیقی کے لئے کئی کئی پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں جن میں اگر ایک طرف قوالی گائی جاتی ہے تو دوسری طرف اوپرا، ہندی گیت، علاقائی زبانوں کے لوک گیت سے لیکر بڑے بڑے موسیقاروں اور سنگرز کو دعوت دی جاتی ہے جس کا بہت بڑا حصہ ہندوستانی موسیقی پر ہی محمول ہوتا ہے۔ ویسے تو ظاہری طور پر گانے بجانے کو موسیقی کہتے ہیں، لیکن اس فن میں بہت گہرائی ہے۔ اس فن کی کئی پرتیں ہیں۔ فن موسیقی کو بہتر سمجھنے کے لئے ریختہ نے درج ذیل کئی اچھی کتابیں پیش کردی ہیں، آپ کو ضرور استفادہ کرنا چاہئے۔
موسیقی حضرت امیر خسرو
https://www.rekhta.org/ebooks/mausiqi-hazrat-ameer-khusrau-ustad-chand-khan-ebooks-1?lang=ur
امیر خسرو عالم و فاضل اور شاعر تھے ہی مگر وہ ایک باکمال ماہر موسیقی بھی تھے۔امیر خسرو نے یہاں کی موسیقی کو سیکھا اور حد کمال کو پہنچایا۔ انہوں نے ایرانی موسیقی میں بھی ایسا ہی کمال حاصل کیا تھا اور دونوں کی آمیزش و ترکیب سے ایک تیسری چیز نکالی جس سے موسیقی کے فن میں ایک تازہ روح پیدا ہو گئی اور جو زیادہ لطف انگیز ہو گئی ہے۔ زیر نظر کتاب امیر خسرو کی موسیقی اور سنگیت پر نہایت اہم تصنیف ہے۔اس تصنیف میں ستار ، طبلہ اور راگوں پر قلبانہ ، سوہلا ، صنم ، غنم وغیرہ جیسے گیت شامل کیے گئے ۔چاند خاں کی اس کتاب کا بیشتر حصہ یہ بتانے کے لیے وقف ہے کہ ہندوستانی سنگیت کے کتنے بڑے حصے کی جڑیں عرب میں موجود ہیں ۔ انہوں نے کئی دیسی راگوں کے عربی متبادل بتائے ہیں۔ چونکہ یہ کتاب ، استاد چاند خاں صاحب کی تصنیف ہے اور وہ خود موسیقی کے آفتاب تھے اس لیے انھوں نے خسرو کی موسیقی کے متعلق درست معلومات اور امیر خسرو کے بہت سے اختراعی راگ ، راگنیاں اور مختلف اقسام کے گانوں وغیرہ سے پردہ خفا کو ہٹایا ہے۔
موسیقی کی پہلی کتاب
https://www.rekhta.org/ebooks/mausiqi-ki-pahli-kitab-khalid-malik-hiader-ebooks?lang=ur
یہ کتاب موسیقی کے طلبا کے لئے لکھی گئی ہے۔ اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ایک طالب علم عملی موسیقی کے ساتھ ساتھ اردو اور سٹاف نوٹیشن دونوں میں موسیقی لکھ پڑھ سکے۔ چونکہ ہماری موسیقی ابتدا سے ہی ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہی جو علم کی دولت سے زیادہ واقف نہ تھے۔ چونکہ موسیقی ان کا پیشہ تھا اور ان تک سینہ بسینہ آئی تھی۔ جس کا تعلق سیکھنے سکھانے سے تھا، بہت ہی کم لوگوں نے موسیقی کے ابتدائی اصولوں کو تحریری شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اسی لئے موسیقی کے مبتدی کے لئے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ اس کتاب میں باقاعدہ اردو موسیقی کو سٹاف نوٹیشن خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور سٹاف نوٹیشن بھی تفصیل سے دے دی گئی ہے۔
اردو موسیقی
https://www.rekhta.org/ebook-detail/urdu-mausiqi-khalid-malik-hiader-ebooks?lang=ur
یہ کتاب بھی خالد ملک حیدر صاحب کی علم موسیقی پر ایک صخیم کتاب ہے جو تین حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول میں سارے گاما، حصہ دوم میں خیال گائیکی، جبکہ حصہ سوم موسیقی ۲۰۰۴، اس حصے میں برصغیر کی موجودہ موسیقی کو لیا گیا ہے۔ در اصل یہ میوزک کمپوزیشن پر اردو میں باقاعدہ پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب میں اردو موسیقی کی قدیم تاریخ اور نوابی دور تک کے حالات کا ذکر، ٹھاٹھ سسٹم پر نظر ثانی، راگوں پر ایک تجزیہ، اور قدیم اساتذہ کی کلاسکی بندشیں یقینا مشرقی کلاسکی موسیقی کے شائقین کے لئے کسی تحفہ سے کم نہیں۔
ہندوستان کی موسیقی
https://www.rekhta.org/ebooks/hindustan-ki-mausiqi-abdul-halim-sharar-ebooks?lang=ur
فنون لطیفہ سے عبد الحلیم شرر کو گہرا ربط تھا۔ انھوں نے رقص ، موسیقی اور ٹھیٹر کے حوالے سے دل گداز میں کافی مضامین بھی لکھے تھے۔ زیر نظر کتاب “ہندوستان کی موسیقی” شرر کا وہ خطبہ ہے جو انھوں نے مہاراجہ بڑودہ کی فرمائش پر ایک میوزک کانفرنس میں پڑھا تھا۔ اس خطبے میں انھوں نے موسیقی کی اصلیت ہیئت، ہندی موسیقی، ظہور اسلام سے قبل اور بعد عربی موسیقی ، اور ایرانی موسیقی پر مختصر لیکن مدلل انداز مین لکھا ہے۔ وہ اس خظبے میں عربی و عجمی موسیقی کے نغمات کی ایک جامع فہرست دیتے ہیں اور ایسی دھنوں کے ترک کرنے کے حق میں ہیں جو ہندوستانی نظام موسیقی سے ہم آہنگ نہیں۔ پارسی تھیٹریکل کمپنیوں اور مغربی موسیقی کے تحت رائج ہونے والی دھنوں کے وہ شدید مخالف ہیں۔ حکومت کے زیر سر پرستی وہ ایک اعلی درجے کے “کانسرٹ” کے قیام کی سفارش کرتے ہیں۔ انھوں اس خطبہ میں اپنا خیال ظاہر کیا کہ اس کانسرٹ کی نگرانی میں موسیقی کی عام معیار بندی اور خط موسیقی مرتب کیے جا سکیں گے۔
غنچہ راگ
https://www.rekhta.org/ebooks/ghuncha-e-raag-mardan-ali-khan-rana-ebooks-1?lang=ur
علم موسیقی کے موضوع پر مبنی کتاب “غنچہ راگ” موسیقی کے مختلف راگوں اور ان کے مخارج سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے۔ فن موسیقی کے متعلق مختلف سروں، ان کے مخارج، مختلف ساز کا استعمال وغیرہ کو کتاب ہذا میں مع تصاویر شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب قدیم اور مختصر ہے لیکن فن موسیقی کے شائقین کے لیے مفید و کارآمد ہے۔ یہ کتاب ۱۸۹۶ میں دوسری بار منشی نول کشور سے چھپ کر شائع ہوئی تھی، جس کے مصنف مشہور ماہر موسیقی مردان علی خان رانا ہیں۔
تعارف موسیقی
https://www.rekhta.org/ebook-detail/taaruf-e-mausiqi-mohammad-ramzan-famous-ebooks?lang=ur
کتاب کے مصنف محمد رمضان فیمس تقریبا نصف صدی سے فن موسیقی سے وابستہ ہیں۔ اور اساتذہ فن کی صف میں شامل ہیں۔ موصوف نے کتاب کے پیش لفظ میں موسیقی کی اہمیت اور ہندوستان میں اس کے پس منظر پر اختصار سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعد موسیقی کی اہم اصطلاحات کی تشریح کرتے ہوئے پندرہ راگوں کی بندشیں (طرزیں) بتائی ہیں۔ اس کی اہم خوبی یہ ہے کہ بوجھل اصطلاحات، پیچیدہ خیالات اور غیر ضروری تفصیلات سے اجتناب کیا گیا ہے۔ اور کوشش کی گئی ہے کہ موسیقی کی ابتدائی باتیں آسان زنان اور سہل انداز میں پیش کردی جائیں۔
امیر خسرو اور موسیقی
https://www.rekhta.org/ebooks/ameer-khusrau-aur-mausiqi-ebooks?lang=ur
یہ کتاب ادارہ تحقیق موسیقی کی طرف سے مرتب کی گئی ہے۔ جس میں حضرت امیر خسرو کی موسیقی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ امیر خسرو وہ عبقری شخصیت ہیں کہ ان کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کس صنف کے استاد ہیں۔ اگر موسیقی کی بات ہو تب بھی وہ نایک اور جگت گرو کہلائیں گے۔ یہ انتخاب چند نامور محققین کے مضآمین پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے کن کن راگ راگنیوں کی ایجادکی ہے اور کن کن میں اضافہ کیا ہے، پر بات کی گئی ہے۔ خسرو قول و قوالی کی مجالس میں بھی پہلی صف میں نظر آتے ہیں اور ہارمونیم و طبلہ میں بھی سب کے امام ہیں۔ اس لئے خسرو کے ہر پہلو پر بات کی جانی چاہئے اور یہ کتاب ان کی ہندوستانی موسیقی پر خاص طور سے بات کرتی ہے۔
اس کے علاوہ ریختہ نے اپنی ویب سائٹ (rekhta.org) پر ای بکس کا بہت بڑا ذخیرہ اکٹھا کیا ہے جس میں ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں اور موسیقی جیسے لطیف علم پر بھی کچھ اچھی قدیم و جدید کتابیں وہاں موجود ہیں۔ آپ کو سر سنگیت کی معلومات کے لئے ریختہ کے موسیقی سیکشن کا ضرور رخ کرنا چاہئے۔
https://www.rekhta.org/ebooks-category/music?lang=ur
تبصرہ نگار: صاد ظفر