بابری مسجد کا اصل مجرم کون؟

معصوم مراد آبادی

Masoom-Muradabadi

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 9نومبر کو جب سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ رام مندر کے حق میں صادر کیا تو سب سے پہلے اس فیصلے کا خیر مقدم بی جے پی نے نہیں بلکہ کانگریس پارٹی نے کیا ۔کانگریس صدر سونیا گاندھی کی صدارت میں اسی روز ورکنگ کمیٹی کی ہنگامی میٹنگ طلب کرکے ایک قرار داد پاس کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ’’ عدالت نے ہماری آستھا اور اعتماد برقرار رکھا ہے ۔کانگریس رام مندر کے حق میں ہے۔‘‘ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات اخبار نویسوں کو بتا تے ہوئے کانگریس ترجمان سرجے والا نے کہا کہ’’ کانگریس ہمیشہ ہی رام مندر کی تعمیر کی تائید و حمایت کرتی رہی ہے اور آج سپریم کورٹ کے فیصلے نے رام مندر کی تعمیر کے دروازے کھول دیئے ہیں۔‘‘

CJI
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ سیکولرازم کی سب سے بڑی علمبردار کانگریس پارٹی نے ہی ایودھیا میں با بری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی تمام رکاوٹیں دورکیں اور سنگھ پریوار کے ہاتھوں سے ہندتواکے ایجنڈے کو چھیننے کی ہر ممکن کوشش کی ۔یہ الگ بات ہے کہ کانگریس نے اس چھینا جھپٹی میں اپنے ہاتھ جلا لئے اور آج کانگریس کی جو دگر گوں حالت ہے‘ وہ ایودھیا مسئلے پر اس کی دوغلی پالیسی کا ہی نتیجہ ہے ۔آپ کو یہ جان کر مزید حیرت ہوگی کہ جس مقدمے میں سپریم کورٹ نے رام مندر کے حق میں فیصلہ صادر کیا ہے‘ وہ مقدمہ کسی اور نے نہیں خود کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر داخلہ بوٹا سنگھ نے دائر کروایا تھا۔ ظاہر ہے جو لوگ ایودھیا تنازعہ کو طول دینے کے سلسلے میں کانگریس کے اصل کردار سے واقف ہیں‘ ان کے لئے یہ انکشاف نیا نہیں ہے کیونکہ کانگریس پارٹی نے 1986میں با بری مسجد کا تالا کھلوانے سے لے کر اس کی ظالمانہ شہادت تک ہر موڑ پر اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس معاملے میں آنجہانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے سرگرم کردار کو دیکھتے ہوئے انہیں سابق داخلہ سکریٹری مادھو گوڈ بولے نے اپنی حالیہ کتاب میں ’’دوسرا کار سیوک‘ ‘قرار دیا ہے ۔اس کتاب کے مشمولات پر ہم آگے چل کر بحث کریں گے‘ آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ سابق وزیر داخلہ بوٹا سنگھ نے کس طرح با بری مسجد کے مالکانہ حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش رچی۔ اس سلسلے میں ہندی روز نامہ ’دینک بھاسکر ‘نے اپنی 12نومبر 2019کی اشاعت میں جو خبر شائع کی ہے‘ اسے ہم ذیل میں جوں کا توں نقل کررہے ہیں۔ملاحظہ ہو:

babri-masjid-AT
’’سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے تالا کھلوا کر ایودھیا میں وشو ہندو پریشد کی رام مندر تحریک کو تقویت بخشی تو اُس وقت کے وزیر داخلہ سردار بوٹا سنگھ کے اہم مشورے نے جنم بھومی کی زمین حاصل کرنے کی راہ ہموار کردی ۔اس سلسلے میں وشوہندو پریشد کے نائب صدر اور مندر تحریک کے لیڈر چمپت رائے کا کہنا ہے کہ 1950میں گوپال سنگھ وشارد نے فیض آباد کے سوِل جج کے سامنے رام جنم بھومی میں پوجا کی اجازت مانگی تھی ۔جب کہ 1961میں سنی سینٹرل وقف بورڈ نے متنازعہ اراضی کا مالکانہ حق مسجد کے لئے طلب کیا تھا ۔اس سے پہلے نرموہی اکھاڑا نے 1959میں مندر کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کا مقدمہ دائر کیا تھا ۔یعنی ہندو فریق کی طرف سے دائر کئے گئے مقد مات میں زمین کے مالکانہ حق کا مطالبہ موجود نہیں تھا ۔لیکن جب رام مندر کی تحریک زور پکڑنے لگی اورراجیو گاندھی نے تالا کھلوایا تو اس وقت بوٹا سنگھ نے شیلا دکشت کی معرفت اشوک سنگھل کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ ہندو فریق کے کسی بھی مقدمے میں زمین کا مالکانہ حق نہیں مانگا گیا ہے‘ لہٰذا ایسے میں مقدمہ ہارنا لازمی ہے ۔دراصل الہ آباد میں نہرو۔ گاندھی خاندان اور اشوک سنگھل کا گھر آمنے سامنے تھا اور ان دونوں خاندانوں میں اچھی خاصی قربت تھی ۔اسی وجہ سے راجیو گاندھی نے بالواسطہ طور پر اس معاملے میں تعاون کیا تھا ۔بوٹا سنگھ کا مشورہ کام کرگیا اور مندر تحریک کے لیڈر دیو کی نند ن اگروال اور کچھ دیگر لوگوں کو پٹنہ بھیجا گیا جہاں لال نرائن سنہا اور ان کے ساتھیوں نے تیسرے مقدمے کی کہانی رچی جس میں رام للا وراجمان اور رام جنم بھومی کو وجود فراہم کرنے کا مطالبہ کیاگیا ۔اس طرح1989میں پہلی بار رام للا مقدمے کا حصہ بنے جس سے مالکانہ حق کی لڑائی شروع ہوئی ۔‘‘

’دینک بھاسکر ‘کی مذکورہ خبر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں جس مقدمے میں رام للا کو مالکانہ حق دیا ہے‘ وہ مقدمہ دراصل کانگریس کے دور حکومت میں وزیر داخلہ سردار بوٹا سنگھ کی خصوصی دلچسپی سے دائر ہوا تھا اور اسی دوران با بری مسجد کے روبرو رام مندر کا شیلا نیاس بھی ہوا تھا ۔اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ با بری مسجد کو حق ملکیت سے محروم کرنے کی اصل سازش فرقہ پرست سنگھ پریوار نے نہیں بلکہ سیکولر کانگریس کے سینئر لیڈر بوٹا سنگھ نے رچی تھی تو بے جا نہ ہوگا ۔

ayodhya
آب آئیے ہم سابق داخلہ سکریٹری مادھو گوڈ بولے کے بیان کا رخ کرتے ہیں جو راجیو گاندھی اور نرسمہا رائو دونوں کے دور اقتدار میں وزارت داخلہ کے سب سے بڑے آفیسر کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے ۔گوڈ بولے نے حال ہی میں ایودھیا تنازعہ پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں بہت واضح طورپر آنجہانی وزیر اعظم راجیو گاندھی اور نرسمہا رائو کے دوغلے کردار کی نقاب کشائی کی گئی ہے ۔گوڈ بولے کا کہنا ہے کہ 1992میں با بری مسجد کے انہدام سے پہلے ہی مرکزی حکومت مرکزی سیکورٹی فورسز کو ایودھیا بھیج کر انہدام کو روک سکتی تھی ۔گوڈ بولے نے لکھا ہے کہ ایودھیا معاملہ کو خراب اور خطرناک پوزیشن میں پہنچانے کے لئے اس وقت کی مرکزی حکومت ،اترپردیش سرکار اور عدالتیں تینوں ذمہ دار ہیں ۔لیکن 6دسمبر کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا رائو اور اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ ذمہ دار اور گناہ گار تھے ۔گوڈ بولے نے آگے لکھا ہے کہ ملک کا آئین بنانے والوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اس طرح سرکاریں آئینی طور پر پوری طرح ناکام ہوں گی اور اپنے وعدے سے مجرمانہ طور پر مکر جائیں گی ۔گوڈ بولے کا کہنا ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے ایودھیا کی صورتحال پر غور کرکے اُس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا رائو کو ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دسمبر 92سے دو مہینے پہلے ہی مسجد اور اس کے ارد گرد کا علاقہ مرکزی حکومت اپنی تحویل میں لے لے،وہاں مرکزی فورسز کی معقول تعیناتی کردی جائے اور دفعہ 356لگا کر صوبائی حکومت کو بر خاست کردیا جائے۔لیکن نرسمہا رائو نے قوت ارادی نہیں دکھائی ۔انہوں نے اپنی ہی وزارت داخلہ کی رپورٹ کو تسلیم کرنے کی بجائے کلیان سنگھ اور ان کے وعدوں پر بھروسہ کیا ۔نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔گوڈ بولے نے دعویٰ کیا ہے کہ جب بابری مسجد زبردست خطرے میں تھی تب نرسمہا رائو کے علاوہ وزیر اعظم راجیو گاندھی اور وپی سنگھ بھی وقت پر کارروائی کرنے میں ناکام رہے تھے ۔گوڈ بولے نے کہا کہ وزیر اعظم رہتے ہوئے راجیو گاندھی نے با بری مسجد کا تالا کھلوایا ۔ان کے دور میں ہی مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد کی گئی تھی ۔اسی وجہ سے میں انہیں اس تحریک کا ’دوسرا کارسیوک ‘کہتا ہوں ۔حالانکہ پہلے کارسیوک اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ تھے‘ جنہوں نے یہ سب شروع کیا تھا ۔

مادھو گوڈ بولے کا یہ بیان پوری طرح حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ راجیو گاندھی 1986میں پارلیمنٹ میں پاس کئے گئے مسلم مطلقہ خاتون بل کی وجہ سے ہندو شدت پسندوں کے دبائو میں تھے ۔ان پر اس معاملے میں مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا الزام تھا لہٰذا ان کے کابینی رفیق ارون نہرو نے یہ مشورہ دیا کہ وہ با بری مسجد کا تالا کھلوا کر ہندوئوں کو مطمئن کرسکتے ہیں ۔لہٰذا انہوں نے اس پر عمل کیا اور اس وقت کے یوپی کے وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا ۔اتنا ہی نہیں راجیو گاندھی فرقہ پرست طاقتوں سے اتنے مرعوب ہوگئے تھے کہ انہوں نے عام انتخابات کے لئے اپنی مہم کا آغاز ایودھیا کے ضلع فیض آباد سے رام راجیہ قائم کرنے کے اعلان کے ساتھ کیا تھا ۔یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ ایودھیا میں با بری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے اور ہندوئوں میں بیداری پیدا کرنے کی جو تحریک سنگھ پریوار نے شروع کی تھی اسے عملی جامہ پہنانے کا کام کانگریس نے انجام دیا ۔حالانکہ وہ ہندوایجنڈے کو بی جے پی کے ہاتھوں سے چھیننے کی کوششوں میں اپنے دونوں ہاتھ جلا بیٹھی ہے لیکن آج بھی وہ اپنی دوغلی پالیسی ترک کرنے کو تیار نہیں ہے ۔کانگریس کی پے در پے حماقتوں کے نتیجے میں بی جے پی مسلسل کامیابی کی منزلیں طے کررہی ہے اور کانگریس روز بروز زوال کی طرف بڑھ رہی ہے۔

 

نوٹ،پورٹل میں شائع مضامین ومراسلات میں مضمون نگاروں کے ذریعہ ظاہرکی گئی آرا ان کی ذاتی ہیں- اس کے لئے ارریہ ٹائمز کسی طرح سے ذمہ دارنہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.