جس تسلسل سے حکمراں جماعت کے شیطانی کارندے مسلم بادشاہوں اور ان کی تعمیرات سے متعلق بے سر و پا باتیں کرکے زہرافشانی کررہے ہیں اس سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ یہ لوگ ہندوستانی قوانین ہی نہیں ہندوستانی تاریخ بھی بدلنا چاہتے ہیں،
اور یہ لوگ ان صفحات کو کتب تواریخ سے ہٹانے کی پے در پے شیطانی کوشش کررہے ہیں جن پر مسلم بادشاہوں اور مجاہدین کے کارنامے درج ہیں ،
کتابوں سے ان الفاظ اور حروف کو مٹانے کی تیاری کررہے ہیں جن سے مسلم راجاؤں کی تعریف کا کوئی پہلو نکلتا ہو ۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ انہیں بیساکھیوں پر چلنے کے عادت ہے ۔
یہ خود اپنی تاریخ یا تو آزادی کے بعد سے بتاتے ہیں یا پھر انگریزی مؤرخین کی من گھڑت تاریخ کا سہارا لیتے ہیں۔
یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان کی آزادی ہند سے پہلے کی مرکزی حیثیت چاپلوسی ، موقع پرستی ابن الوقتی سے عبارت ہے ۔
انگریزی تاریخ دانوں نے ہندوستانی عوام کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے من گھڑت باتیں نقل کردیں ، لوگوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے کے لئے جو رطب و یابس بیان کردییے۔ انہوں جو کچھ بھی افسانے گڑھ دیئے اسی کو یہ حرف آخر سمجھتے ہیں ۔
انہیں اتنی بھی اہلیت نہیں ہے کہ وہ ہندوستانی مؤرخین کی تحقیقات و تفتیشات اور ان کی لکھی ہوئی تاریخیں پڑھ کر ذہنوں پر لگی بدگمانیوں کی غلاظت دور کرسکیں۔۔
اکثر ہندوستانی مؤرخین کے تحقیقی جائزے انگریزی مؤرخین سے یکسر مختلف ہیں ،
ان کی اکثر رائے مسلم بادشاہوں کے بارے میں مثبت ہیں ۔
انگریزی مؤرخین چاہے کتنی ہی من گھڑت اور جھوٹ باتیں کیوں نہ بول رہے ہوں ان پر یہ حضرات آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں ۔
ایک انگریزی مؤرخ لیون بی بورنگ نے ٹیپو سلطان کو نادرشاہ ، تیمور لنگ اور محمود غزنوی کی صف میں کھڑا کرتے ہوئے ان پر یہ الزام لگایا کہ ٹیپو سلطان کٹر مذہبی اور متعصب تھا ، ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا اور اس نے میسور کے کورگ نامی علاقے کے ستر ہزار ہندؤوں کو جبراً مسلمان بنایا ۔
جس کو لے کر آجکل بھاجپائی نیتا لوگوں کے دل و دماغ میں ٹیپو سلطان کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے ان کو ہندو مخالف کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔
جب کہ تاریخ کا ایک ادنی طالب علم بھی بتا دے گا کہ انگریزی مؤرخ اپنی بات میں کتنا جھوٹا اور کتنا سچا ہے ؟
ٹیپو سلطان کے دور حکومت میں کورگ کی کل آبادی بہ مشکل تیس ہزارتھی، جس میں مسلمان اور عیسائی بھی تھے ۔
اب بتائیے !
جہاں کی آبادی کل تیس ہزار لوگوں پر مشتمل ہو اور اکثریت مسلمان اور عیسائیوں کی ہو وہاں کے ستر ہزار لوگوں کو کنورٹ کیسے کرلیا گیا ؟؟
تاریخ کا ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم بھی لیون بی بورنگ کی اس من گھڑت تحقیق کو اس کے منہ پہ دے مارے گا کہ جھوٹ گڑھتے ہوئے عقل کیا گھاس چرنے چلی گئی تھی ۔
کورگ جو کہ میسور کا ایک حصہ ہے اس کی تاریخی حیثت بتاتے ہوئے ہندو مؤرخ رام چندر پنگنوری کہتے ہیں صرف پانچ سو ہندو مسلمان ہوئے تھے ،اور وہ بادشاہ کے ڈر اور دباؤ میں آکر مسلمان نہیں ہوئے تھے ، بلکہ اپنی قوم کی بیجا پابندیوں ، اونچ نیچ اور چھوت چھات کی وجہ سے بیزار ہوگئے تھے ۔
اور ایک ہندو مؤرخ سریندر ناتھ سین نے سلطان شہید کی دفاع کرتے ہوئے یہ باتیں کہی ہیں ” سلطان متعصب نہیں تھا ، ہندوؤں کو مسلمان بنانے کا مقصد مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھا” ۔
ایک موقع پرمہاتما گاندھی سے کسی نے ٹیپو سلطان کے بارے میں پوچھا تو گاندھی جی کا جواب تھا ، “سلطان پر متعصب ہونے کا الزام صاف جھوٹ ہے ، سلطان کا ہندوؤں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے “
آجکل کچھ شیطانی سوچ و فکر والے مذہبی پرچارک اور سیاسی نیتا عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ زہر مسلسل گھول رہے ہیں کہ ٹیپو سلطان ہندو ورودھی تھے ، انہوں نے مندروں کو گرایا ، ہندوؤں اور عیسائیوں کو سر عام قتل کیا اور ہزاروں ہندوؤں کو جبراً مسلمان بنایا وغیرہ وغیرہ ۔
اسی کو بنیاد بنا کر کرناٹک کے ایک بی جے پی نیتا نے ٹیپو سلطان کے بارے میں بے تکی باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ” ٹیپو جینتی میں مجھے نہ بلایا جائے –
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ علیہ ایک دیندار اور راسخ العقیدہ سنی مسلمان تھے ، البتہ وہ تعصب اور عناد سے بالکل پاک تھے ، ان کے نزدیک من حیث المذہب ہندو اور مسلمان کی کوئی جداگانہ حیثیت نہ تھی ، وہ ہر رعایا کو ایک نظر سے دیکھتے تھے ہر ایک کو برابر کا درجہ دیتے تھے، وہ جس طرح مسجد کا احترام کرتے تھے اسی طرح مندر کا بھی ۔
انہوں نے کبھی کسی ہندو راجا سے مذہب کی بنیاد پر جنگ نہیں کی ، وہ مساوات و رواداری کے قائل تھے ،
تاریخ میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے آفتاب نصف النہار کی طرح یہ حقیقت مترشح ہوجاتی ہے کہ ٹیپو سلطان شہید ایک مذہبی روادار بادشاہ تھے ،
(1) کانجی ورم (آجکل کیرالہ کا ایک ضلع ہے) کے ایک مندر کو چند شر پسند فوجیوں نے گرادیا ،جب بادشاہ کو اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ مندر کو اپنی ذاتی صرفے سے دوبارہ بنوایا بلکہ مجرم فوجیوں کو سخت ترین سزا بھی دی ۔
(2) ڈنڈیگل ( اس وقت تمل ناڈو کا ایک ضلع ہے) کے ایک راجا پر جنگ کے دوران گولہ باری مندر کے اگلے حصے سے نہ کر کے بالکل عقبی حصے سے کروائی صرف اس خیال سے کہ مندر کا کچھ نقصان نہ ہو ۔
جو بادشاہ عین جنگ کے وقت بھی کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتا ہو اس بادشاہ پر دوسرے دھرم کے لوگوں سے نفرت کرنے ، ان کی عبادت گاہوں کو گرانے اور منہدم کرنے کا الزام عائد کرنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟
آخر انگریزی مؤرخین نے ان کو ہندو مخالف کے طور پر کیوں پیش کیا ؟ اس کا آسان سا جواب تاریخی حوالوں سے مل جائے گا
کہ انگریزوں کی فطرت میں چالبازی ، مکاری اور عیاری کا عنصر غالب رہا ہے۔
وہ ہندوستانی عوام کو لڑائے بغیر اپنا مقصد پورا نہیں کرسکتے تھے ، اس لئے انہوں نے تاریخ کو مکمل طور پر یا تو خلط ملط کردیا ، یا پھر من گھڑت واقعات کو مسلم اور ہندو بادشاہوں کی جانب منسوب کردیا تاکہ ان کا بنیادی مقصد “لڑاؤ اور حکومت کرو ” پورا ہوسکے ۔
انگریزی مؤرخین کے برعکس سوئیڈن کے ایک سیموئیل سٹرینڈ برگ نامی مورخ نے ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام Teepu Sultan ہے جس کا ترجمہ و تلخیص محمد زاہد ملک نے کیا ہے ، اس کتاب میں انہوں نے ٹیپو سلطان شہید کی مذہبی رواداری کو بتاتے ہوئے ان کے 1787 کا اعلامیہ نقل کیا ہے ، جس میں درج ذیل باتیں ہیں ۔
(1) مذہبی برداشت اور مذہبی رواداری قرآن کا بنیادی درس ہے
(2) قرآن فرماتا ہے مذہب کے معاملے میں کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے
(3) قرآن فرماتا ہے تم کافروں کے بتوں کو برا بھلا مت کہو
(4) ہم خدا کے بنائے ہوئے اس قانون کو دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں، یہ بنی نوع انسان کو بھائی چارہ کا درس دیتا ہے اور انسان کے وقار کو بلند کرتا ہے ، ہم نے ہندوؤں کی ویدوں کا بھی مطالعہ کیا ہے ، وہ بھی عالمگیر اتحاد و اتفاق کا درس دیتی ہیں، اور اس اعتقاد کی وضاحت کرتی ہے کہ خدا ایک ہے اگرچہ کئی ناموں کا حامل ہے
( ٹیپو سلطان صفحہ 57)
(3) جب مرہٹوں نے راگھورناتھ راٹھور کی قیادت میں ایک مندر پر حملہ کرکے مندر کے قیمتی املاک لوٹ لیے ، مورتیاں باہر پھینک دیں اور کئی برہمنوں کو قتل بھی کردیا ، جن میں کئی مورتیاں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں ، چنانچہ شنکر گرو آچاریہ وہاں سے جان بچا کر بھاگے اور ٹیپو سلطان کی خدمت میں ایک خط بھیج کر اس کی شکایت کی تو سلطان نے اس مندر کو دوسو اشرفیاں بطور مدد کے دیں ، اور ساری مورتیوں کو اس کی جگہ پر نصب کرتے ہوئے ایک ہزار لوگوں کو کھانا کھلایا ، جس سے خوش ہوکر گروشنکر آچاریہ نے سلطان کو ایک شال پیش کی تھی ۔ (سیرت ٹیپو سلطان صفحہ 432)
(4) ننجن گڑھ کے کلاوی گاؤں کے ایک لکشمی کانتھ نام کے مندر میں چار چاندی کے پیالے اور ایک اگلدان تحفے میں دیئے تھے ، جو اب تک باقی ہیں ۔
اسی طرح کرناٹک کے ضلع سری رنگا پٹنم کے ایک مندر کو ایک کافور دان اور سات چاندی کے پیالے تحفے میں بھیجے تھے ۔
(5)ننجن گڑھ کے ایک اور مندر کو چاندی کےسات پیالے دیئے تھے جن کے نچھلے حصے میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔
(6) خود ٹیپو سلطان کے محل کے پاس ایک مندر تھا ، اور اس میں روزانہ ہندوؤں کی پوجا پاٹ ہوتی رہی ، گھنٹی بجنے کی آواز مسلسل بادشاہ کو پہنچتی اور گھنٹی بجنے کی وجہ سے اکثر ان کی آنکھ کھل جاتی ۔ مگر کبھی انہوں نے اس سے منع نہیں کیا ۔
ڈاکٹر سی کے کریم نے اپنی کتاب KERALA UNDER TEEPU میں کئی تاریخی حوالوں سے لکھا ہے کہ کیرالہ کےایک جنوبی ضلع کے ساٹھ مندروں کو سالانہ وظیفے جاری کیے گئے تھے ،
وزیر خزانہ پورنیا نے یہ شہادت دی ہے کہ مندروں کو سالانہ سرکاری خزانے سے 193959 روپے کی مالی مدد جاتی تھی ۔
صرف اتنا ہی نہیں کہ سلطان مندر کی امداد کرتے تھے بلکہ سلطان کی سلطنت خداداد کے کئی اہم عہدوں پر ہندو فائز تھے، وزیر خزانہ پورنیا نام کے برہمن تھے جو اردو اور فارسی کے شاعر تھے ، وہ اکثر سلطان کے ساتھ رہتے ، خط و کتابت کا کام بھی وہی کرتے تھے ،اور ان کے بھائی سنگا رانا بھی بادشاہ کے قریبی تھے ، وہ بھی سرکاری ملازم تھے ،
میر جعفر کی غداری کے بعد سلطان کے وزیر اعظم دوم بھی پورنیا ہی بنائے گئے تھے ، اور یہ ٹیپو کی بدقسمتی رہی کہ پورنیا بھی میر جعفر کی طرح غدار نکلے ۔
سلطان مہدوی فرقے کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے ، مگر کئی مہدوی بھی بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے ، میر قاسم ، میر قمر الدین اور میر جعفر اسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے ،
اور بھی کئی عہدوں پر ہندو اور مہدوی فرقے کے لوگ تھے ،
4مئی 1799ء میں جب سلطان ٹیپو میر قمر الدین اور میر جعفر کی غداری کی وجہ سے میدان کار زار میں دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے تو ان کے ساتھ سینکڑوں ہندو عورتیں بھی شہید ہوئیں ،ان میں سینکڑوں نوجوان لڑکیوں کی لاشیں پائی گیئں ، جب جنازہ نکلا تو ہزاروں خواتین ماتم کررہی تھیں اور اپنے سروں پر مٹی ڈال رہی تھیں ،
جس وقت دارالسلطنت کا محاصرہ ہوا اس وقت ہزاروں ہندوؤں نے اپنے مذہب کے مطابق روزہ رکھا تھا ،
جب انگریز افسران نے بادشاہ کے ساتھ ہندو عوام کی یہ عقیدت و محبت دیکھی تو حیرت میں پڑگئے ۔ انتہائی تعجب کرتے ہوئے کہنے لگے یہ پہلا مسلم بادشاہ ہے جس کی موت پر اتنے غیر مسلم ماتم کررہے ہیں ۔
اگر سلطان شہید ہندوؤں کے قاتل ہوتے ، متعصب ہوتے تو کیا ہندو حضرات انہیں اتنی محبت دیتے ان سے اتنی عقیدت رکھتے ؟ ان کی فتح کے لیے برتھ رکھتے ؟ ان کی وفات پر ماتم کرتے؟ ان پر جان نثار کرتے ؟
کیا کوئی مظلوم اپنے ظالم اور کوئی مقتول اپنے قاتل کی فتح کے لیے دعا کرتا ہے ؟
مضمون نگار: سلیم صدیقی پورنوی