اين ڈى اے دوم ميں حكومت كے تيور اوّل روز سے بدلے ہوئے تهے -وه تو اپنے نظرياتى كرم فرماؤوں كے خاكے ميں رنگ بهرنے ميں صرف مہروں كى حيثيت سے كا م كر رہے تهے ، انہيں اس بات كى بڑى جلدى تهى كہ كس طرح ہندوستان كے نقشے كو بدل ديں ، وه نقشہ جسے گاندهى جى كے ساتھ ساتھ بلا تفريق مذہب وملت ہر ہندوستانى نے ديكها تها ، ايسا ہندوستان جس ميں سب كے حقوق يكساں ہوں ، ہر كوئى پورى قوت اور اعتماد كے ساتھ اپنے ہندوستانى ہونے پر فخر كرسكے مگر اس شتربے مہار حكومت كو پارليمنٹ ميں اپنى واضح اكثريت پر ناز تها ، ميڈيا كو تو اس نے پہلے ہى دن سے زير ِ دام كرلياتها ، بيوروكريسى تو ہروقت حكومت وقت كےابروِ چشم كى طرف ديكهتى تهى كہ آقا حكم فرمائيں اور ہم اس كو نافذ كريں ، عدليہ نے بهى مختلف متنازع فيصلوں سے اپنے وقار كو بٹّہ لگا ديا تها ، اپوژيشن كى كمر ميں وه طاقت ہى نہ بچى تهى جس كے سہارے وه مزاحمت كرسكيں ، ايسے ميں حكومت كا شتر بے مہار ہونا كوئى تعجب كى بات نہ تهى .
مودى حكومت نے دوسرى بار زمامِ اقتدار سنبهالتے ہى ہندوستانى مسلمانوں كو يكے بعد ديگرے كئى جھٹكے دئے ، پارليمنٹ تو ايسے لگ رہا تها كہ قانون سازى كى فيكٹرى كى شكل اختيار كر گيا ہے ، ہر شيسن ميں ايك آرڈيننس ، قانون كى شكل اختيا ر كر رہا تها ، پہلے تو مسلم خواتين كى مظلوميت كے سہارے طلاق ثلاثہ بل پاس كراكے مسلمانوں كے پرسنل لا ميں سيندھ لگائى گئى اور ہندوستانى مسلمان اس فيصلے سے ابهى اُبر بهى نہ پائے تهے كہ كشمير كے خصوصى اختيار كو ختم كرديا گيا اور اس سے يہ پيغام ديا گيا كہ حكومت ہر فيصلہ لينے ميں خود مختار ہے ، اسے كسى رائے عامہ كے سہارے كى ضرورت نہيں ، اور جب ضرورت ہوگى ، نام نہاد ميڈيا چينلس كے سہارے رائے عامہ ہموار كرلى جائے گى – دفعہ 370 كے خاتمے كے بعد رہى سہى كسر عدليہ كے ہاتهوں پورى كردى گئى جب شواہد اور دلائل كے برخلاف يك طرفہ فيصلہ سناديا گيا اور مسلم ملت نے بهى اس پر بحالت مجبورى تسليم كرنے ميں ہى اپنى عافيت سمجهى . كہ چلو كسى طرح سے سہى معاملہ ختم تو ہوا .
ان سب اہم اور تاريخى فيصلوں سے حكومت كے حوصلے اور بلند ہوئے اور اس نے يہ يقين كرليا كہ اب مسلم قوم ميں مزاحمت كى كوئى رمق باقى نہيں ہے ، اب تو جو بهى فيصلے كئے جائيں گے اس ميں ہم آزاد ہيں ، اپوژيشن بهى خواہى نہ خواہى حكومت كا ساتھ دے گى اور ہندوستان كى سب بڑى اقليت كے سامنے سرِ تسليم خَم كرنے كے علاوه كوئى چاره نہيں ہے ، كيونكہ ان كے اندر اتحاد واتفاق كى كيفيت نہيں ہے اور ہركوئى “شيخ اپنى اپنى ديكھ” كے فارمولے پر عمل كر رہاہے –
انہيں نہيں معلوم تها كہ جامعہ مليہ اسلاميہ ميں گرچہ انہوں نے طلبہ تحريك پر پابندى لگاركهى ہے ، يونين كے انتخاب نہيں كرائے جاتے كہ كہيں يونين كا اسٹيج طلبہ كے اندر طلبائى سياست كے ساتھ ساتھ ملكى سياست كے گُر نہ سكهانے لگے اور وه بهى اپنے مطالبات ببانگ ِ دہل يونيورسٹى انتظاميہ كے ساتھ ساتھ حكومت كے ايوانوں كو ہلانے لگيں ، ان سب كے باوجود جامعہ كے طلبہ وطالبات اتنے باشعور ہوں گے كہ وه دستورہند كى روح كو بچانے كے ميدان ميں آ جائيں گے اور مزاحمت كى وه تاريخ رقم كريں گے كہ دنيا كى نام ور يونيورسٹياں بهى اس سبق لينے پر مجبور ہو ں گى ،
سى اے اے كے خلاف جامعہ كى تحريك ، خالص طلبائ تحريك تهى جس نے بعد عوامى تحريك كى شكل اختياركى – اس تحريك ميں جامعہ كے صد في صد طلبہ شريك تهے ، كچھ ميدان ميں تهے تو كچھ ميدان كو سجا رہے تهے اور كچھ ميدان كے پيچهے بهى اس تحريك كو قوّت پہونچار ہے تهے . تو كيا دستور ِ ہند كى روح كى بقا ء كے لئےجمہورى جدّوجہد كرنا ايسا كام ہے جو ملك كے خلاف بغاوت ٹهہرے اور وه چہرے جنہوں نے جامعہ كے بانيان كے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس ملك كو گاندهى جى اور مولانا محمد على جوہر كے ہندوستان كو باقى ركهنے كے لئے پوليس كى لاٹهياں كهائيں ، وه اس بات كے مستحق ہيں كہ ان پر بغاوت كا فردِجرم لگايا جائے اور انہيں سلاخوں كے پيچهے ڈهكيل ديا جائے –
يہ تحريك جب اپنے عروج پرتهى اور طلبہ جامعہ كے علاوه پورے دہلى كے انصاف پسند و حق پسند طلبہ وطالبات كى آواز بن چكى تهى اس وقت ملك وملّت سے وابستہ بہت سے نامور چہرے جامعہ كے اسٹيج كو استعمال كرنے ميں اپنا فخر محسوس كرتے تهے اور وہاں تك پہونچنے كے لئے واسطوں كا سہارا ليتے تهے اور پهر اپنے خطابات كے بعد اپنى سوشل ميڈيا كى پروفائل پر بڑے فخر سے لگاتے تهے ، آج ان كى مجرمانہ خاموشى ہم طلبہ جامعہ كو بہت كھَلتى ہے ، وه كچھ كرنہيں سكتے تو كم ازكم ہمدردى كے دو بول تواپنى زبان ِ مبارك سے نكال سكتے ہيں –
يہ تحريك طلبہ جامعہ نے كسى كى ايما پر نہيں بلكہ اپنى ذمے دارى سمجھ كر برپا كى تهى ، كيونكہ جامعہ كے ساتھ ملّيہ اور اسلاميہ كے لاحقے نے ہى ہميں يہ سبق دياتها كہ ہم ملك اور ملت سے الگ نہيں ره سكتے ، ملك كا مسئلہ بهى ہمارا مسئلہ ہے اور ملت كا مسئلہ بهى ہمارا مسئلہ. چاہے ملك والے اس كو نہ سمجهيں اور چاہے ملّت كے رہمنا اس كا ادراك نہ كريں . لاك ڈاؤن كے زمانے ميں اس تحريك نے ايك وقفہ ليا ہے ، كيونكہ ہم قانون كى پاسدارى كرنے والے لوگ ہيں ، اور قانون پر عمل كرنا ہم اپنے لئے اتنا ہى لازم سمجهتے ہيں جتنا كلاس رومس ميں اساتذه سے گوہر علم كو سميٹنا ، ليكن اس كے ساتھ ساتھ ہم اپنے ملك كے تئيں اتنے ہى بيدار ہيں – ہم جيتے جى اپنے ملك كى عزت كو خوار ہوتے نہيں ديكھ سكتے ، ہم نے تو اپنى ذمے دارى بخوبى نبهائى مگر تُف ہے قانون كے ان ركهوالوں پر جنھوں نے اس لا ك ڈاؤن كو دہلى ميں كريك ڈاؤن ميں تبديل كرديا ہے ، اور رات كے اندهيروں ميں جامعہ كے ان سپوتوں كو سلاخوں كے پيچهے ڈهكيل رہے ہيں جنھوں نے صرف اپنى ذمے دارى كا ثبوت ديا ہے ،جامعہ كے تئيں ، اس ملك عزيز كے تئيں اور اس ملت ناگفتہ كے تئيں .
جامعہ كے جو بهى سپوت اس وقت حكومت وقت كے عتاب كا شكارہيں اور انہيں ناكرده گناہوں ميں گرفتار كيا جارہا ہے ، ان سب كو ان كى جرأت رندانہ كى سزا دى جارہى ہے ، پوليس كا بيانيہ سراسر نا انصافى پر مبنى ہے ، ہاں انهوں نے يہ ضرور جرم كيا ہے كہ ان سب نے ہميں جامعہ كے قيام كے مقاصد كو دوباره پڑهنے پر مجبور كيا اور ہميں سر اٹها كر جينا سكهايا . اور ميرے خيال سے يہ سب اس كے اقرارى مجرم ہوں گے ۔
عماره رضوان
مضمون نگار جامعہ مليہ اسلاميہ،نئی دہلی ميں بارہويں كى طالبہ ہيں
نوٹ:مضمون نگارکی ذاتی رائے ہیں،اس کیلئے ارریہ ٹائمز کسی طرح ذمہ دارنہیں ہے۔